اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے والے پیر سے بیعت کا حکم

اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے والے پیر کی بیعت کا حکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی پیر اجنبی جوان عورتوں سے بھی ہاتھ ملاتا ہو تو کیا اس کی بیعت توڑ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو پیر اجنبیہ جوان عورتوں سے ہاتھ ملاتا ہو، اس کی بیعت توڑنا لازم و ضروری ہے بلکہ ایسے پیر سے بیعت ہونا ہی جائز نہیں کیوں کہ اجنبیہ جوان عورت سے ہاتھ ملانا، ناجائز و حرام ہے اور یہ کام اعلانیہ کرنے والا فاسق معلن ہے اور فاسق معلن سے بیعت ہونا ہی جائز نہیں، اور اگر ایسے پیر سے بیعت کر لی ہو تو اسے توڑد ینال ازم ہے۔

نامحرم عورت کو چھونے کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له“

ترجمہ: تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کا سُوا (بڑی سوئی) چُبھو دیا جائے، یہ اِس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد20، صفحہ211، حدیث: 486، مطبوعہ: قاھرہ)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے عورتوں سے جب بھی بیعت لی، کبھی بھی اُن کاہاتھ نہ تھاما، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:

”واللہ ما مست يده يد امرأة قط في المبايعة، وما بايعهن إلا بقولہ“

ترجمہ: اللہ عزوجل کی قسم! دورانِ بیعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی بھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے عورتوں سے صرف زبانی ہی بیعت لی۔ (صحیح البخاری، جلد3، صفحہ189، حدیث: 2713، مطبوعہ: مصر)

 ايك موقع پر صحابیات نے بیعت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم سے اپنا ہاتھ آگے بڑھانے کی درخواست کی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے منع فرمایا، چنانچہ سنن النسائی شریف میں ہے

”هلم نبايعك يا رسول اللہ، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إني لا أصافح النساء“

ترجمہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم ! اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ (سنن النسائی، جلد7، صفحہ149، حدیث: 4181، مطبوعہ: قاھرہ)

جوان لڑکی سے مصافحہ کے متعلق علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 743ھ/1342ء) لکھتے ہیں:

ولا يجوز له أن يمس وجهها، ولا كفيها، وإن أمن الشهوة لوجود المحرم وانعدام الضرورة والبلوى.قال عليه الصلاة والسلام «من مس كف امرأة ليس منها بسبيل وضع على كفه جمر يوم القيامة» وهذا إذا كانت شابة تشتهى“

ترجمہ: اور نکاح کاپیغام دینے والے کے لیے نہ عورت کے چہرے کو چھونا جائزہے اور نہ اس کی ہتھیلیوں کو اگرچہ شہوت کا خوف نہ ہو کیونکہ ممانعت کی علت موجود ہے اور کوئی ضرورت و مجبوری نہیں ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جس نے کسی عورت کی ہتھیلی کو چھوا، حالانکہ اُس کے لیے اُس عورت کی ہتھیلی چھونے کا کوئی جواز نہ تھا، تو قیامت کے دن اُس کی ہتھیلی پر انگارہ رکھا جائے گا۔ (امام زیلعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ) یہ وعید اُس صورت میں ہے کہ جب لڑکی جوان قابل شہوت ہو۔ (تبیین الحقائق، کتاب الكراهية، جلد6، صفحہ18، دار الکتاب الاسلامی)

فاسق پیر سے بیعت کرنے اور پیر کی شرائط کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے ”یہی سید جلیل عارف جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی کتاب میں فرماتے ہیں: چند شرائط می دان کہ بے آں شرائط اصلا پیری مریدی درست نیست(پیری مریدی چند شرائط پر مبنی ہے جن کے بغیر پیری مریدی صحیح نہیں)۔۔۔ پھر تینوں شرطیں بیان کرکے فرمایا: مرید کہ پیر رابایں ہر سہ شرائط موصوف یابد بیعت با اوکند کہ جائز و مستحسن است واگر در پیرا زیں ہر سہ شرائط یکے مفقود بود بیعت با اوجائز نہ باشد واگر کسے از سبب نادانی باو بیعت کردہ باشد باید کہ ازاں بیعت بگردد (غرض یہ کہ مرید جب پیر کو ان تینوں شرطوں کا جامع پائے تو اب اس کے ہاتھ پر بیعت کرے کہ جائز و مستحسن ہے اور اگر پیر میں ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں بلکہ اگر کسی نے نادانستہ ایسے پیر سے بیعت کرلی تو اس پر اس بیعت کاتوڑدینا واجب ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، ج 21، ص 566، 568، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4348

تاریخ اجراء: 27ربیع الثانی1447 ھ/21اکتوبر2025 ء