دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
درود پاک کے ساتھ ذکر و اذکار بھی پڑھ سکتے ہیں؟ یا صرف درود پاک پڑھنا چاہیے؟ اس حوالے سے ایک حدیث پاک ہے، وہ بھی بیان کر دیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! درود پاک کے ساتھ ساتھ ذکر و اذکار بھی کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر کوئی صرف درود پاک ہی پڑھتا رہے گا، تو بحکم حدیث یہ غموں سے نجات اور گناہوں کی معافی کے لیے کافی گا۔
سنن الترمذی کی حدیث پاک میں ہے
قال أبي: قلت: يا رسول اللہ إني أكثر الصلاة عليك، فكم أجعل لك من صلاتي؟ فقال: «ما شئت». قال: قلت: الربع، قال: «ما شئت فإن زدت فهو خير لك»، قلت: النصف، قال: «ما شئت، فإن زدت فهو خير لك»، قال: قلت: فالثلثين، قال: «ما شئت، فإن زدت فهو خير لك»، قلت: أجعل لك صلاتي كلها قال: «إذا تكفى همك، و يغفر لك ذنبك»
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم! میں تو آپ پربہت زِیادہ دُرود شریف پڑھا کرتا ہوں، آپ بتادیجئے کہ کتنا درود پاک مقررکردوں؟ تو نبیِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جس قَدر چاہو مُقرر کرلو۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: چوتھائی حصہ دُرُودپاک کے لیے مقررکرلوں؟ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم جس قدر چاہو مقرر کرلو، ہاں اگر تم اس سے زِیادہ حصہ مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔ میں نے عرض کی: میں نِصف حصہ دُرُود پاک کے لیےمقررکرلوں؟ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم جس قَدر چاہو مقرر کرلو اور اگر تم اس سے بھی زِیادہ وقت مقررکرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔ میں نے عرض کی: میں دوتہائی مقرر کرلوں؟ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا: تم جتنا چاہو وقت مقرر کرلو اور اگر تم اس سے زِیادہ وقت مقررکرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا۔ میں نے عرض کی: میں کل حصہ دُرُود خوانی ہی میں صرف کروں گا۔ تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے تمام غموں کو دُور کرنے کے لیے کافی ہوجائے گا اور تمہارے گناہ مٹادے گا۔ (سنن الترمذی، صفحہ 911، حدیث: 2457، دار ابن کثیر)
مذکورہ حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”زیادتیِ درود نفل ہے نفل میں معین کرنے کا حق بندے کو ہوتا ہے، راوی کے چہارم یا نصف فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تمام درود وظیفوں کا تہائی یا آدھا درود پڑھوں باقی میں سارے وظیفے، جواب ملا کہ درود جتنا بڑھا اتنا ہی بہتر ہے۔۔۔ علما فرماتے ہیں کہ جو تمام دعائیں وظیفے چھوڑ کر ہمیشہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تو اسے بغیر مانگے سب کچھ ملے گا اور دین و دنیا کی مشکلیں خود بخود حل ہوں گی۔ ان احادیث سے پتہ لگا کہ حضور پر درود پڑھنا درحقیقت رب سے اپنے لیے بھیک مانگنا ہے،ہمارے بھکاری ہمارے بچوں کو دعائیں دے کر ہم سے مانگتے ہیں ہم رب کے بھکاری ہیں اس کے حبیب کو دعائیں دے کر اس سے بھیک مانگیں ہمارے درود سے حضور صلی الله علیہ وسلم کا بھلا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا اپنا بھلا ہوتا ہے۔۔۔ شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ مجھے عبدالوہاب متقی جب بھی مدینہ سے وداع کرتے تو فرماتے کہ سفر حج میں فرائض کے بعد درود سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں اپنے سارے اوقات درود میں گھیرو اور اپنے کو درود کے رنگ میں رنگ لو۔“ (مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 103، 104، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4559
تاریخ اجراء: 27 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 19 دسمبر 2025ء