اللّٰہ نبی کا کرم کہنا کیسا؟

اللہ نبی کا کرم کہنے کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

یہ رہنمائی لینی تھی کہ کیا اللہ نبی کا کرم، کہنا شرک ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اللہ (عزوجل)نبی (صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم) کا کرم، کہنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، ہمارے آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی دعاکی برکت سے یہ امت، پچھلی امتوں کی طرح ہلاک نہیں ہوئی، جیسے قوم نوح اورقوم فرعون غرق ہوکر ہلاک ہوگئی، قوم عادسخت آندھی سے ہلاک ہوگئی، قوم لوط کی بستی الٹ دی گئی اور ان پرپتھروں کی بارش ہوئی، قوم ثمودسخت چنگھاڑ سے ہلاک ہوئی کہ اس سے ان کے دل پھٹ گئے، قوم مدین پرزلزلہ، سخت چنگھاڑ کا عذاب آیاوغیرہ وغیرہ۔ تو اتنے سارے عذابوں سے نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی دعاکی برکت سے یہ امت محفوظ ہوگئی، تو یہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا کرم ہی تو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے دعائیں کی کہ: "جس طرح پچھلی امتوں پرعذاب آیا، اس طرح میری امت پرعذاب نہ آئے، میری پوری کی پوری امت قحط سے ہلاک نہ ہوجائے،ڈوب کرہلاک نہ ہو، ساری کی ساری امت کفرمیں مبتلانہ ہوجائے، دشمن ان سب پرغالب نہ آجائے" اور یہ تمام دعائیں قبول فرمالی گئیں، جس کے نتیجے میں آج تک اور قیامت تک یہ امت ان تمام مصائب سے محفوظ ہے، تو یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا کرم ہی تو ہے۔

صحیح مسلم میں ہے

قال صلى اللہ عليه و سلم: سألت ربي ثلاثا، فأعطاني ثنتين ومنعني واحدة، سألت ربي: أن لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها، و سألته أن لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها، و سألته أن لا يجعل بأسهم بينهم فمنعنيها

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں، تو اس نے مجھے دو عطا فرمائیں اور ایک سے مجھے روک دیا۔ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ میری امت کو قحط کے ذریعے ہلاک نہ کرے، تو اس نے مجھے یہ عطا فرما دی۔ اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ میری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا فرما دی۔ اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان کے باہمی لڑائی جھگڑے کو ان ہی کے درمیان نہ رکھے، تو اس نے یہ مجھے عطا نہ فرمائی۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث 2890، ج 4، ص 2216، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

سنن نسائی میں ہے

 فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:۔۔۔ سألت ربي عز وجل فيها ثلاث خصال، فأعطاني اثنتين ومنعني واحدة، سألت ربي عز وجل أن لا يهلكنا بما أهلك به الأمم قبلنا، فأعطانيها، و سألت ربي عز وجل أن لا يظهر علينا عدوا من غيرنا، فأعطانيها، و سألت ربي أن لا يلبسنا شيعا، فمنعنيها

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب عز وجل سے اس نماز میں تین خصلتیں مانگیں، تو اس نے مجھے دو عطا فرمائیں اور ایک سے مجھے روک دیا۔میں نے اپنے رب عز وجل سے سوال کیا کہ وہ ہمیں اس چیز سے ہلاک نہ کرے جس سے اس نے ہم سے پہلی امتوں کو ہلاک کیا، تو اس نے یہ مجھے عطا فرما دی۔ اور میں نے اپنے رب عز وجل سے سوال کیا کہ وہ ہم پر ہمارا بیرونی دشمن غالب نہ کرے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا فرما دی۔ اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ ہمیں گروہوں میں نہ الجھائے، تو اس نے یہ مجھے عطا نہ فرمائی۔ (سنن نسائی، رقم الحدیث 1638، ج 3، ص 216، مكتب المطبوعات الإسلامية)

فتح الباری لابن حجر عسقلانی میں ہے

و لابن أبي حاتم من حديث أبي هريرة رفعه سألت ربي لأمتي أربعا فأعطاني ثلاثا و منعني واحدة سألته أن لا يكفر أمتي جملة فأعطانيها وسألته أن لا يظهر عليهم عدوا من غيرهم فأعطانيها وسألته أن لا يعذبهم بما عذب به الأمم قبلهم فأعطانيها وسألته أن لا يجعل بأسهم بينهم فمنعنيها ۔۔۔ ودخل في قوله بما عذب به الأمم قبلهم الغرق كقوم نوح وفرعون والهلاك بالريح كعاد و الخسف كقوم لوط و قارون و الصيحة كثمود و أصحاب مدين و الرجم كأصحاب الفيل و غير ذلك مما عذبت به الأمم عموما

ترجمہ: اور ابنِ ابی حاتم نے ابو ہریرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے:میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے چار چیزیں مانگیں، تو اس نے مجھے تین عطا فرمائیں اور ایک سے مجھے روک لیا۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ میری امت کو مجموعی طور پر کافر نہ بنا دے، تو اس نے یہ مجھے عطا فرما دی۔ اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان پر ان کے علاوہ کسی دشمن کو غالب نہ کرے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا فرما دی۔ اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ انہیں اس عذاب کے ساتھ عذاب نہ دے، جس کے ساتھ اس نے ان سے پہلے امتوں کو عذاب دیا، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا فرما دی۔اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان کی آپس کی سختی (جنگ و جدال) انہی کے درمیان نہ رکھے، تو اس نے یہ مجھے عطا نہ فرمائی، اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے اس قول 

بما عذب به الأمم قبلهم

(جن کے ذریعے پہلی امتوں پرعذاب آیا) کے تحت داخل ہے: غرق کرنا، جیسے قومِ نوح اور فرعون؛ اور ہوا کے ذریعے ہلاک کرنا، جیسے عاد؛ اور دھنسادینا، جیسے قومِ لوط اور قارون؛ اور چیخ کے ذریعے (ہولناک صیحہ) سے ہلاک کرنا، جیسے ثمود اور اصحابِ مدین؛ اور سنگ باری کے ذریعے، جیسے اصحابِ فیل؛ اور اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جن کے ساتھ امتوں کو عموماً عذاب دیا گیا۔ (فتح الباری لابن حجر، ج 8، ص 293،دار المعرفۃ، بیروت)

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے

يريد "بالغرق": الغرق العام.يعني: سألت ربي ألا يهلك جميع أمتي بالغرق، كما غرق قوم فرعون كلهم، و كما غرق قوم نوح عليه السلام بالطوفان

ترجمہ: حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے "غرق" سے عام غرق مراد لیا، یعنی: میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ میری پوری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے، جیسے فرعون کی پوری قوم غرق ہوئی، اور جیسے نوح علیہ الصلاۃو السلام کی قوم طوفان کے ذریعے غرق ہوئی۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح، ج 6، ص 97، دار النوادر)

قرآن پاک سے چند نظائر:

قرآن مجید کو ملاحظہ کریں، تو کئی جگہ اسی طرح کا انداز دیکھنے کو ملتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی اسی انداز میں اپنے ساتھ ملا کر ارشاد فرمایا ہے ، جیسا کہ منافقین کو ایک جگہ ارشاد ہوا کہ (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا۔مزید انہیں ہی فرمایا: اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔ نیز ایک جگہ یوں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ- وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ- اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ(59)

ترجمہ کنز العرفان: اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔ (پارہ 10، سورۃ التوبة: 59)

مزید ایک جگہ فرمایا:

وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-

ترجمہ: اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ (پارہ 10، سورۃ التوبة: 74)

 اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ

ترجمہ کنز الایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللہ نے نعمت دی اور تم نے اُسے نعمت دی۔ (پارہ 22، سورۃ الاحزاب: 37)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4496

تاریخ اجراء: 11 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 03 دسمبر 2025ء