بدمذہبوں سے تعلقات رکھنا منع کیوں ہے؟

بد مذہبوں سے ملنا منع کیوں ہے حالانکہ دین تو لوگوں کو قریب لاتا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بدمذہبوں سے ملاقات سے روکنے پر لوگ کہتے ہیں کہ دین لوگوں کو قریب لاتا ہے لیکن آپ لوگ دور کردیتے ہیں، برائےمہربانی اس کا جواب ارشادفرمادیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی دولت ایمان ہے اور اس کی حفاظت سب سے اہم چیز ہے، اس کے بعد دوسروں کے تعلق، نرمی، میل ملاپ اور خیرخواہی کا برتاؤ ہے لیکن اگر کسی سے ملنے سے ایمان کو خطرہ ہے تو وہاں ملنے کو ترک کرکے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ یونہی جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ملنے سے منع کیا ہے وہاں ان سے نہیں ملیں گے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم ہماری سمجھ داری اور خیرخواہی سے بڑھ کر مقام رکھتا ہے۔ یہ جملہ کہ ”دین تو جوڑنے کے لیے آیا ہے، اور آپ لوگ دوری پیدا کر رہے ہیں۔“ یہ جملہ بظاہر بہت دل نشین لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ صرف آدھا سچ ہے۔ دین ضرور لوگوں کو قریب لاتا ہے، دلوں کو جوڑتا ہے، بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے، لیکن دین کا صرف یہی اصول نہیں اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا صرف یہی حکم نہیں بلکہ دیگر بھی بہت سے احکام ہیں۔ جن لوگوں سے ملنے میں ایمان، اخلاق اور دینداری کا خطرہ ہو ان سے دور رہنے کا حکم بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے دیا ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ ماں باپ اپنے بچے کو کسی ایسے شخص کے قریب نہیں جانے دیتے جو اُس کے اخلاق یا صحت کے لیے نقصان دَہ ہو، خواہ وہ شخص بڑا مالدار، ہنس مکھ اور جاذب نظر ہو کیونکہ والدین کو نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بچہ بھی برے اخلاق و کردار میں ڈھل جائے گا۔ اسی طرح دین بھی ہمیں ایسے لوگوں سے دور کرتا ہے جن کی صحبت ہمارے ایمان یا عقیدے کے لیے خطرہ بن سکتی ہو، کیونکہ دین کا اصل مقصد انسان کی دائمی بھلائی ہے، محض وقتی خوشگواری یا ظاہری تعلقات نہیں۔

اسلام کی بنیاد توحید، رسالت اور قرآن و سنت پر ہے۔ اگر کوئی شخص ان بنیادوں میں بگاڑ ڈالے، تو اس سے صرف اس لیے تعلق جوڑنا کہ ہم سب انسان ہیں، یہ دین کی روح کو مجروح کرنا ہے۔ قرآن ہمیں بار بار یہ درس دیتا ہے کہ تعلقات، محبتیں، دوستیاں اور دشمنیاں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہونی چاہئے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے تو میدان بدر میں مکے سے آنے والے اپنے سگے رشتے داروں سے جنگ کی تھی لیکن آج کے لوگ کم علمی کی وجہ سے صرف ملاپ کی باتیں کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ اسلام جس طرح محبت سکھاتا ہے، بالکل اسی طرح بعض اوقات سختی برتنے کا بھی حکم دیتا ہے، مگر اس کی وجہ ذاتی رنجشیں یا خواہشاتِ نفسانی نہیں ہوتی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات ہوتے ہیں۔ ہمارا دین پہلے ہمیں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی تعلیمات سے جوڑتا ہے اور پھر اِن سے جڑے لوگوں سے جوڑتا ہے، اور جو اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمن ہوں ،ان سے جڑنے اور قریب ہونے کی بجائے کوسوں دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین واقعی لوگوں کو قریب کرتا ہے، لیکن وہاں کہ جہاں اس سے خیر و بھلائی ہو ، نقصان نہ ہو، اور جہاں نقصان ہو،وہاں یہ ہمیں دوری اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ در اصل یہ دین اسلام کی رحمت و حکمت ہے، جو ہر چیز میں توازن قائم رکھتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گستاخ، صحابہ و اہل بیت علیھم الرضوان کے گستاخ، اولیاء کرام کے بے ادب وغیرہا جس قدر بھی بدمذہب ہیں سب کے بارے میں قرآن کا حکم ملاحظہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

(وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ)

ترجمۂ کنزُ العِرفان: ’’اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔‘‘ (سورۃ الانعام، آیت 68)

مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملّا احمد جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

و ان القوم الظالمین یعم المبتدع و الفاسق و الکافر، و القعود مع کلھم ممتنع

آیت میں موجود لفظ

(الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ)

بدعتی، فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔ (تفسیراتِ احمدیہ، سورہ انعام، تحت الایۃ 68، ص 388، مطبوعہ: کوئٹہ)

اللہ رب العزت نےسورہ ھود میں ظالموں کے طرف میلان سے منع فرمایا:

(وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ)

ترجمہ کنز العرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حما یتی نہیں پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ (سورہ ھود، آیت 113)

مذکورہ آیت میں ظالمین کے تحت بد مذہب بھی داخل ہیں،تفسیر قرطبی میں ہے:

و أنها دالة على هجران أهل الكفر و المعاصي من أهل البدع و غيرهم

یہ آیت کافر اور بدعتی وغیرہ اہل معاصی سے ترکِ تعلق پر دال ہے۔ (تفسیر قرطبی، 03، ص 108، دار الكتب المصرية – القاهرة)

بُری سنگت کے وبال کے متعلق سورۂ فرقان میں ارشاد فرمایا:

(یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(28) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ)

ترجمہ کنز العرفان:ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا۔ (سورہ فرقان، آیت 28- 29)

اور بد عقیدہ کے ضرر کے متعلق صدر الشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:”بدعقیدہ لوگوں کا ضرر فاسق کے ضرر سے بہت زائد ہے فاسق سے جو ضرر پہنچے گا وہ اس سے بہت کم ہے، جو بدعقیدہ لوگوں سے پہنچتا ہے، فاسق سے اکثر دنیا کا ضرر ہوتا ہے اور بدمذہب سے تو دین و ایمان کی بربادی کا ضرر ہے۔“ (بہار شریعت ج 03، ح 16، ص 532،مکتبۃ المدینۃ کراچی)

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں سے دوستی ایمان والوں کا شیوہ نہیں اور ان ہی دشمنوں میں امت کے افضل ترین لوگوں یعنی صحابہ کرام علیھم الرضوان کے دشمن اور ان کے بعد افضل لوگ یعنی اولیاء کرام کے دشمن بھی شامل ہیں۔ ایسے مخالفین سے دوستیوں کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:

(لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ- وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ- رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ- اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(22))

ترجمہ کنز العرفان: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یاان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (سورۃ المجادلۃ، آیت 22)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بدمذہبوں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:

فإياكم و إياهم، لا يضلونكم، و لا يفتنونكم

تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (صحیح المسلم، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء، ج 01، ص 33، مطبوعه لاھور)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق یہاں تک فرمایا کہ:

إن مرضوا فلا تعودوهم، و إن ماتوا فلا تشهدوهم

اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو۔ (سنن ابی داؤد، ج 04، ص 357، رقم: 4691، المطبعة الأنصارية بدهلي، الهند)

اس کے علاوہ حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں مزید اتنا اضافہ ہے کہ:

و إن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم

اگر تم ان سے ملو، تو سلام نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، ج 01، ص 35، رقم: 92، دار إحياء الكتب العربية)

ایک موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا:

فلا تجالسوھم و لا تشاربوھم و لا تؤاکلوھم و لا تناکحوھم

نہ تم اُن کے پاس بیٹھو، نہ ان کے ساتھ کھاؤ، پیو، نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو۔ (کنزالعُمّال، ج 06، کتاب الفضائل، باب ذکر الصحابۃ، ص 246، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

اللہ کےحکم کی وجہ سے بدعتی سےاِعراض کرنا سلامتی و ایمان میں اضافے کا باعث ہے،كنز العمال اور تاریخ بغداد وغیرہ کتب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

من أعرض عن صاحب بدعة بغضا له في اللہ ملأ اللہ قلبه أمنا و إيمانا

جو شخص اللہ کے لئے بدعتی شخص سے بغض کی بنا پر اس سے اِعراض کرے، اللہ اس کے دل کوسلامتی و ایمان سے بھر دے گا۔ (کنز العمال، ج 03، ص 82، رقم: 5599، مؤسسة الرسالة) (تاریخ بغداد، ج 11، ص 545، دار الغرب الإسلامي – بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0556

تاریخ اجراء: 23 شوال المکرم 1446ھ / 22 اپریل 2025ء