
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کسی نے پوسٹ بھیجی تھی جس میں عنوان کے طور پر لکھا تھا "غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز" اور نیچے سورۃ المائدۃ کی یہ آیت مبارکہ لکھی تھی "وما اھل لغیر اللّٰہ بہ" یعنی اور (تم پر حرام قرار دیا گیا ہے)ہر اس چیز کو جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔" تو کیا یہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولیائے کرام کی نذر و نیاز کو حرام قراردینا شرعا درست نہیں ہے۔ اوراس پربتوں والی آیت فٹ کرنابھی درست نہیں ہے ۔
بخاری شریف میں ہے
"و كان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال: إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار، فجعلوها على المؤمنين۔"
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان (یعنی خوارج) کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے۔ اورفرماتے تھے: یہ ان آیات کو لیتے ہیں جو کفار کے بارے میں نازل ہوئیں، اور ان کومسلمانوں پرفٹ کرتے ہیں۔(صحیح البخاری، باب قتل الخوارج والملحدین الخ، جلد9، صفحہ 16، مطبوعہ :مصر)
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ :
قرآن پاک کی اِس آیت مبارکہ میں اُن جانوروں کی حرمت کا بیان ہے جنھیں ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کے نام کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو جیسے زمانہ جاہلیت میں لوگ بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے، اس آیتِ مبارکہ کے ترجمے کو ہی بدل دینا اور اس سے حلال کھانوں کی حرمت ثابت کرنا پرلے درجے کی جہالت اور شریعتِ مطہرہ پر افترا و تہمت ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
( حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ)
ترجمہ کنز الایمان: تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور و ہ جو گلہ گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو اور جو کسی تھان (باطل معبودوں کے مخصوص نشانات)پر ذبح کیا گیا۔ (پارہ06، سورۃ المائدۃ، آیت03)
متعدد تفاسیر قرآن مثلا ً تفسیر کبیر، احکام القرآن للجصاص، حاشیہ صاوی علی جلالین، حاشیہ جمل علی جلالین، تفسیر مدارک، تفسیر خازن اور تفسیر روح المعانی وغیرہ میں اس آیت کریمہ کے تحت مذکور ہے
(والنظم ھذا للرازی ) ’’والاھلال رفع الصوت ۔۔۔ وکانوا یقولون عند الذبح باسم اللات والعزی فحرم اللہ تعالیٰ ذلک‘‘
ترجمہ: اہلال سے مراد آواز کو بلند کرنا اور کفارِ عرب ذبح کے وقت لات عُزی کا نام لیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام فرما دیا۔‘‘ (تفسیرِ کبیر، جلد4، صفحہ283، مطبوعہ لاہور)
اور احکام القرآن کے الفاظ یہ ہیں:
’’ولا خلاف بین المسلمین أن المراد بہ الذبیحۃ اذا أھل بھا لغیر اللہ عند الذبح‘‘
ترجمہ: مسلمانوں میں اس بات پرکوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت میں مراد وہ جانور ہے جس کے ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کا نام لیا گیا ہو۔‘‘ (احکام القرآن للجصاص، جلد1، صفحہ176، مطبوعہ کراچی)
آیت مبارکہ کے انڈر لائن حصے کی تفسیر میں، تفسیر خزائن العرفان میں ہے: "وہ جانور جس کے ذَبح کے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ بُتوں کے نا م پر ذَبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذَبح تو صرف اللہ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیرِ خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسے کہ عبداللہ کی گائے، عقیقے کا بکرا، ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو، ان کو غیرِ وقتِ ذَبح میں اولیاء کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذَبح ان کا فقط اللہ کے نام پر ہو اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے، وہ حلال و طیِّب ہیں۔ اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذَبح کرتے وقت غیرِ خدا کا نام لیا گیا ہو، وہابی جو ذَبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنٰی میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام تفاسیرِ معتبرہ کے خلاف ہے اور خود آیت ان کے معنی کو بننے نہیں دیتی کیونکہ ''مَآ اُھِلَّ بِہٖ'' کو اگر وقتِ ذبح کے ساتھ مقیّد نہ کریں تو ''اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ'' کا استثناء اس کو لاحق ہو گا اور وہ جانور جو غیرِ وقتِ ذبح میں غیرِ خدا کے نام سے موسوم رہا ہو وہ ''اِلَّامَا ذَکَّیْتُمْ'' سے حلال ہو گا، غرض وہابی کو آیت سے سند لانے کی کوئی سبیل نہیں" (خزائن العرفان، سورۃ المائدۃ، تحت الآیۃ03)
سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’من ذبح لضیف، ذبیحۃ کانت فداء ہ من النار‘‘
ترجمہ:جو اپنے مہمان کے لئے جانور ذبح کرے وہ ذبیحہ دوزخ کی آگ سے اس کا فدیہ ہوگا۔(کنز العمال، کتاب الضیافۃ، الفصل الاول، جلد9، صفحہ245، حدیث 25852، مؤسسۃ الرسالۃ )
درمختارمیں ہے
’’لو ذبح للضیف لایحرم لانہ سنۃ الخلیل و اکرام الضیف اکرام ﷲ تعالی‘‘
ترجمہ: جس نے مہمان کے لیے ذبح کیا تووہ حرام نہیں ہوگا کیونکہ یہ خلیل علیہ السلام کی سنت اور مہمان کا اکرام ہے اور مہمان کا اکرام اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔
ردالمحتارمیں ہے:
’’قال البزازی ومن ظن انہ لایحل لانہ ذبح لاکرام ابن اٰدم فیکون اھل بہ لغیر ﷲ تعالی فقد خالف القراٰن والحدیث و العقل فانہ لاریب ان القصاب یذبح للربح ولو علم انہ نجس لایذبح فیلزم ھذا الجاھل ان لایاکل ماذبح القصاب وما ذبح للولائم والاعراس والعقیقۃ‘‘
ترجمہ: بزازی نے کہا: اور جس نے گمان کیا کہ وہ اس لئے حلا ل نہیں کہ اس کو بنی آدم کے اکرام کے لیے ذبح کیا گیا ہے تو یہ غیر اللہ کے نام سے ذبح ہوا، تو اس نے قرآن وحدیث اور عقل کے خلاف بات کی، کیونکہ بلا شبہہ قصاب نفع کے لئے ذبح کرتاہے اوراگر اسے معلوم ہو کہ یہ نجس ہے تو وہ ذبح نہ کرے، تو ایسے جاہل کو چاہیے کہ وہ قصاب کے ذبح کردہ کونہ کھائے اور ولیمہ اور شادی اور عقیقہ کے لئے ذبح کردہ بھی نہ کھائے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد9، صفحہ515، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی
فتوی نمبر : WAT-4164
تاریخ اجراء : 02 ربیع الاوّل1447ھ/27اگست2025ء