دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دس سال کا بچہ انتقال کر جائے تو جس طرح بالغ افراد کا چالیسواں کیا جاتا ہے، کیا اس بچے کا بھی چالیسواں کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دس سال کے بچے کا چالیسواں کرسکتے ہیں کہ فوت شدہ مسلمان کا چالیسواں کرنا، شرعی طور پر ایصال ثواب ہے اور دس سال کے بچے کو بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے کہ جسے ایصال ثواب کیا جائے، اُس کے نیک یا گنہگار ہونے، نیز بالغ یا نابالغ ہونے کی کوئی تخصیص نہیں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ بالغ یا گنہگار کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں، نابالغ (جیسے صورت مسئولہ میں دس سال کا بچہ) یا نیک کو ایصال ثواب نہیں کر سکتے، بلکہ انسان اپنے ہر عمل کا ثواب دوسرے مسلمان کو ایصال کرسکتا ہے، البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ گنہگار کو ایصال ثواب کا مقصد مغفرت کی دعا ہے، جبکہ نیک افراد کے لیے ایصال ثواب کا مقصد درجات کی بلندی اور مزید رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، جیسا کہ اہلِ اسلام انبیائے کرام اور بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ثواب پیش کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی ﷲ تعالی عنہ کے زمانہ سے اب تک یہی معمول ہے، حالانکہ انبیائے کرام علیہم السلام تو قطعی طور پر معصوم ہیں، لہذا دس سال کا نابالغ بچہ کہ جو اگرچہ گنہگار نہیں ہے، اُس کا چالیسواں کرنا یعنی اسے ایصال ثواب کرنا، جائز ہےکہ نابالغ کے حق میں ایصال ثواب بلندی درجات کا سبب ہے۔
یادرہے ! ایصال ثواب جس دن، جس وقت بھی کیا جائے وہ پہنچتا ہے اور اس کے لئے جو دن اور تاریخ مقرر کی جاتی ہے، وہ فقط مسلمانوں کی آسانی کے لئے کی جاتی ہے، جیسے لوگوں کی آسانی کی خاطر جماعت اور دیگر کاموں کے لئے ایک ٹائم مقرر کر لیا جاتا ہے، البتہ ایسے نظریہ سے بچنا ضروری ہے کہ ایصال ثواب انہیں دنوں میں پہنچتا ہے اور ان کے علاوہ نہیں، لہذا چالیس دن بعد یا جب بھی آسانی ہو، ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔
انسان اپنے ہر عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا سکتا ہے جیساکہ علامہ ابن عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”صرح علماؤنا فی باب الحج عن الغیر بان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا، کذا فی الھدایۃ، بل فی زکاۃ التاترخانیۃ عن المحیط: الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین و المؤمنات، لانھا تصل الیھم و لا ینقص من اجرہ شئ اھ و ھو مذھب اھل السنۃ و الجماعۃ“
ترجمہ: ہمارے علمائے کرام نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ انسان کے لیے اپنے عمل کا ثواب کسی دوسرے کو بخشنا جائز ہے، (چاہے وہ عمل) نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا اس کے علاوہ، اسی طرح ہدایہ میں ہے۔ بلکہ محیط کے حوالے سے فتاویٰ تاترخانیہ کی کتاب الزکوٰۃ میں ہے: نفل صدقہ کرنے والے کے لیے افضل ہے کہ تمام مسلمان مَردوں اور مسلمان عورتوں کی نیت کر لے، کیونکہ وہ انہیں پہنچتا ہے اور اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی، اھ اور یہ اہلِ سنت و جماعت کا مذہب ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ 180، مطبوعہ کوئٹہ)
چھوٹے بچےکو ایصال ثواب کرنے کے متعلق سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہو ا کہ اگر کسی کھانے پر یا شیرینی پر بچے کی فاتحہ دےکر مسکینوں کو کھلادے، تب اس کھانے کی فاتحہ یا شیرینی کا میت کو ثواب ملےگا یا نہیں؟ اس کے جواب میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”ضرور جائز ہے اور بیشک ثواب پہنچتاہے۔اہلسنت کا یہی مذہب ہے
’’والصبی لاشک انہ من اھل الثواب ونصوص الحدیث وارشادات العلماء مطلقۃ لاتخصیص فیھا‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ اہل ثواب میں سے ہے (کیونکہ) حدیث شریف کی تصریحات اور علمائے کرام کے ارشادات اس بارے میں مطلق مذکور ہیں کہ جن میں کوئی تخصیص نہیں(یعنی بالغ و نابالغ کی کوئی قید مذکور نہیں)، اور اللہ تعالیٰ پاک برتر اور سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ124، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)
مغفرت کی دعا کرنا، گناہ ہونے کو ہی مستلزم نہیں ہے، بلکہ کبھی یہ دعا درجات کی بلندی کے لیے بھی ہوتی ہے، جیساکہ شہاب الدین علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (وِصال: 1270ھ/1853ء) لکھتے ہیں:
’’كان الدعاء بالمغفرة لا يستلزم وجوب ذنب بل قد يكون بزيادة درجات كما يشير إليه استغفاره عليه الصلاة والسلام في اليوم والليلة مائة مرة. وكذا الدعاء بها للميت الصغير في صلاة الجنازة“
ترجمہ: مغفرت کی دعا کرنا، گناہ ہونے کو ہی لازم نہیں ہے، بلکہ کبھی یہ دعا درجات کی بلندی کے لیے بھی ہوتی ہے، جیسا کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دن اور رات میں سو مرتبہ اِستغفار فرمانا اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اسی طرح نماز جنازہ میں نابالغ میت کے لیے دعا کا بھی یہی محمل ہے۔ (تفسیر روح المعانی، جلد11، صفحہ262، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:
”قال ابن حجر: الدعاء في حق الصغير لرفع الدرجات“
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: چھوٹے بچے کے حق میں دعا کرنا بلندی درجات کا سبب ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد03، صفحہ 1208، مطبوعہ دارالفکر بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”یہ خیال کہ جب وہ بحکم ِحدیث ان شاء اللہ العزیز فتنہ قبر سے مامون ہے کہ اس مسلم کی موت روز جمعہ واقع ہوئی خصوصاً وہ خود ہی صالحین سے تھا، تو اب ایصال ثواب کی کیا حاجت، محض غلط اور بے معنی ہے۔ ایصال ثواب جس طرح منعِ عذاب یا رفعِ عقاب میں باذن اللہ تعالیٰ کام دیتا ہے یونہی رفعِ درجات و زیادت حسنات میں اور حق سبحانہ وتعالیٰ کے فضل اور اس کی زیادت و برکت سے کوئی غنی نہیں۔۔۔جب حق جل و علا کی دنیوی برکت سے بندہ کو غنا نہیں تو اس کی دینی برکت سے کون بے نیاز ہوسکتا ہے؟ صلحاء تو صلحا خود امام اعاظم ِاولیاء بلکہ حضرات انبیاء خود حضور پر نور نبی الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایصال ثواب زمانہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے اب تک معمول ہے حالانکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام قطعاً معصوم ہیں، تو موتِ جمعہ یا صلاح کیا مانع ہوسکتی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد09، صفحہ607، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ایصال ثواب جس دن، جس وقت بھی کیا جائے وہ پہنچتا ہے، کسی ایک دن کو معین کرنا شرعی تعیین نہیں، صرف عرفی تعیین ہے، جیساکہ امام اہلسنت مام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”اموات کو ایصال ثواب قطعاً مستحب، رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ“
ترجمہ: جو اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے تو چاہیے کہ اسے نفع پہنچائے۔ اور یہ تعینات عرفیہ ہیں، ان میں اصلاً حرج نہیں جبکہ انھیں شرعاً لازم نہ جانے، یہ نہ سمجھے کہ انہی دنوں ثواب پہنچے گا آگے پیچھے نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ 607، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: انتقال کے بعد خاص کر تیسرے دن سوئم، دسویں دن دسواں اور چالیسویں دن چالیسواں کرنا ایک رسمی بات ہے، مردہ ڈوبتے ہوئے آدمی کی طرح ہوتا ہے اسے مدد کی ضرور ت ہوتی ہے، اس لئے جتنی جلدی ہوسکے اسے ثواب پہنچایا جائے تو بہتر ہے ۔۔۔انتقال کے دوسرے دن سوئم اور چوتھے دن چالیسواں کے نام پر مردہ کو ایصال ثواب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتاوی فقیہ ملت، جلد1، صفحہ 282، شبیر برادرز، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9616
تاریخ اجراء: 19 جمادی الاولٰی 1447ھ 11نومبر 2025ء