بھردو جھولی میری یا محمد ﷺ نعت پڑھنا کیسا؟

”بھردو جھولی میری یا محمد(علیہ الصلوۃ والسلام) لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی“ پڑھنے کاحکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

”بھردو جھولی میری یا محمد(علیہ الصلوۃ و السلام)، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی“یہ پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم سے مدد مانگنا، شرعاجائزہے، اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ درحقیقت آپ علیہ الصلوۃ و السلام کواللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ بناناہے اورقرآن پاک میں وسیلہ تلاش کرنے کاحکم ارشاد فرمایا گیا ہے۔

ہاں!یہ یادرہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے القابات کے ساتھ پکاراجائے مثلایارسول اللہ، یا حبیب اللہ، (عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ، کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کونام کے ساتھ پکارنے کی اجازت نہیں ہے۔

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾

ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (سورۃ المائدۃ، پارہ 06، آیت 35)

نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کےدنیاسے پردہ فرمانے کے بعدآپ علیہ الصلوۃ والسلام سے مددمانگنے کی ایک دلیل:

حضرت مالک دار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرمایا:

أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: يا رسول اللہ، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له: «ائت عمر فأقرئه السلام، و أخبره أنكم مستقيمون و قل له: عليك الكيس، عليك الكيس»، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال: يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں لوگوں کو قحط پہنچا تو ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر انور کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ(تعالی) کے رسول(صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم)! اپنی امت کے لیے بارش طلب کریں کیونکہ وہ (قحط سالی کے سبب) ہلاک ہو گئی ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کےخواب میں تشریف لائے، اور اسے کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور انہیں کہو کہ ہوشیار رہیں، ہوشیار رہیں۔ پس وہ شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رو پڑے اور عرض کیا کہ اے میرے رب! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر جس سے میں عاجز آ جاؤں۔(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 6، صفحہ 356، حدیث: 32002، مطبوعہ: لبنان)

فتح الباری میں علامہ ابن حجر اس روایت کو بیان کرنے سے پہلے بیان فرماتے ہیں:

و روی ابن ابی شیبۃ باسناد صحیح من روایۃ ابی صالح السمان عن مالک الداری۔۔۔ وقد روی سیف فی الفتوح ان الذی رای المنام المذکور ھو بلال بن الحارث المزنی احد الصحابۃ

 (اس روایت کو) ابن ابی شیبہ نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا، یعنی ابو صالح السمان سے، اور انہوں نے مالک الداری سے۔ اور سیف نے فتوح میں روایت کیا کہ وہ شخص جنہوں نے مذکورہ خواب دیکھا وہ بلال بن حارث مزنی ہیں جو کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے ایک ہیں۔ (فتح الباری لابن حجر، جلد2، صفحہ 495، 496، دار المعرفۃ، بیروت)

امام اہلسنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: "استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات و مالک مستقل وغنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالٰی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا:

و ابتغوا الیہ الوسیلۃ

(اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔) بایں معنی استعانت بالغیر ہر گز اس حصر

ایاک نستعین

کے منافی نہیں، جس طرح وجود حقیقی کہ خود اپنی ذات سے بے کسی کے پیدا کئے موجود ہونا خالص بجناب الٰہی تعالٰی وتقدس ہے۔ پھر اس کے سبب دوسرے کو موجود کہنا شرک نہ ہوگیا جب تک وہی وجود حقیقی نہ مرادلے ۔۔۔ ۔۔۔ یہی حال استعانت وفریاد رسی کا ہے کہ ان کی حقیقت خاص بخدا اور بمعنی وسیلہ وتوسل وتوسط غیر کے لئے ثابت اور قطعا روا، بلکہ یہ معنی تو غیر خدا ہی کے لئے خاص ہیں اللہ عزوجل وسیلہ و توسل و توسط بننے سے پاک ہے۔ اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہوگا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے۔ کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔" (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 303، 304، رضافاونڈیشن، لاہور)

تفسیر نعیمی میں ہے ”انبیاء، اولیاء سے مدد لینا حقیقت میں ربّ ہی سے امداد ہے، کیونکہ اس کی امدا د دو طرح کی ہے، بالواسطہ یا بلا واسطہ اللہ کے بندوں کی مدد ربّ کے فیضان کا واسطہ ہے، قرآن کریم نے غیر خدا سے امداد لینے کا خود حکم فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:

﴿اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ﴾

مسلمانو! مدد لو صبرو نماز سے۔ صبر و نماز بھی غیر خدا ہیں۔“ (تفسیر نعیمی، جلد 1، صفحہ 88، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

نام کے ساتھ پکارنے کے متعلق جزئیات:

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

(لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-)

ترجمہ کنز الایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (سورۃ النور،، پارہ 18، آیت: 63)

 فتاوی رضویہ میں ہے ”علماء تصریح فرماتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے۔ اور واقعی محل انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تجاوز کرے۔ بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا: اگر یہ لفظ کسی دعا میں واردہو جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم فرمائی جیسے دعائے

یامحمد انی توجھت بک الی ربی

(اے محمد! میں آپ کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا۔ ت) تاہم اس کی جگہ یا رسول اللہ، یا نبی اللہ چاہئے، حالانکہ الفاظِ دعاء میں حتی الوسع تغییر نہیں کی جاتی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 157، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4194

تاریخ اجراء: 03ربیع الاول1447ھ/28اگست2025ء