
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا جامع شرائط پیر صاحب کے انتقال کے بعد بیعت ختم ہوجاتی ہے؟ اگر نہیں تو ایک شخص کسی کامل اور جامع شرائط پیر کا مرید ہے، پیر صاحب کے انتقال کے بعد ان کا کوئی گدی نشین اور خلیفہ بن گیا جو جامع شرائط نہیں، بلکہ گمراہ کن عقائد والا ہے تو ایسی صورت میں کیا اس خلیفہ سے تعلقات رکھ سکتے ہیں اور تعویذ وغیرہ لے سکتے ہیں ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں اگر وہ پیر صاحب واقعی مرشد کامل اور جامع شرائط تھے تو اگرچہ ان کا وصال ہوچکا ہو، ان سے بیعت باقی ہے، اسی وجہ سے کسی دوسرے پیر سے مرید ہونے کی ممانعت ہے، بلکہ اس نسبت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے گمراہ گدی نشین کی تو اس سے کسی طرح کا تعلق رکھنا جائز نہیں بلکہ ایسے گدی نشین سے تعلق رکھنا دنیا و آخرت کی بربادی کا سامان ہے۔
تنبیہ: کامل پیر کے لئے چار شرائط ہیں، کسی سے بھی بیعت کرنے سے پہلے ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جس شخص میں ان میں سے ایک بھی شرط کم ہو، اس کی بیعت جائز نہیں اور خود اس کا پیر بننا بھی جائزنہیں ہے، وہ شرائط یہ ہیں : (1) سنی صحیح العقیدہ ہو (2) اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے (3) فاسق معلن نہ ہو (4) اُس کا سلسلہ نبی پاک صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تک متصل ہو۔
جامع شرائط پیر کے انتقال کے بعد بھی بیعت باقی رہتی ہے جیساکہ فتاوی تاج الشریعہ میں مفتی اختر رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے پیر کے انتقال کی صورت میں بیعت باقی ہونے نہ ہونے اور اس کا اعادہ و تجدید لازم ہونے نہ ہونے کے متعلق سوال ہوا، تو جوابا ً ارشاد فرمایا : ”پیر کی وفات ہوگئی ہو تو وہی بیعت کافی ہے۔“ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد02، صفحہ39، اکبر بک سلیرز)
یہی وجہ ہے کہ بلاوجہ شرعی کسی دوسرے پیر سے بیعت ہونے کی اجازت نہیں، چنانچہ امام اہل سنت علیہ الرحمہ سے پیر کے انتقال کے بعد دوسرے سے بیعت ہونے کے متعلق سوال ہوا، تو جواباً ارشاد فرمایا: ”دوسرے شیخ سے طالب ہو، مگر اپنی ارادت شیخ اول ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو وہ اپنے پیر ہی کی عطا جانے۔ اولیائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے دو باپ نہیں ہوسکتے، ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہوسکتے، ایک مرید کے دو شیخ نہیں ہوسکتے۔ “ (فتاویٰ رضویہ، جلد26، صفحہ 580، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بد مذہبوں سے میل جول اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کی ممانعت کےمتعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے :
﴿وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾
ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔ (القرآن الکریم، پارہ 7، سورۃ الانعام، آیت: 68)
اس آیت کے تحت علامہ ملّا احمد جیون علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
”وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر، والقعود مع کلھم ممتنع“
ترجمہ: آیت میں موجودلفظ ﴿الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ﴾ بدعتی، فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔ (تفسراتِ احمدیہ، صفحہ 388، مطبوعہ: کوئٹہ )
قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:
﴿وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی۔ (القرآن الکریم، پارہ 12، سورہ ھود، آیت: 113)
اس آیت کے تحت صدر الافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”اس سے معلوم ہوا کہ خدا کے نافرمانوں کے ساتھ یعنی کافِروں اور بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول، رسم و راہ، مَوَدّت و مَحبت، ان کی ہاں میں ہاں ملانا، ان کی خوشامد میں رہنا ممنوع ہے۔ (خزائن العرفان، صفحہ437، مکتبۃ المدینہ، کراچی )
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدمذہبوں کے متعلق یہ بھی ارشادفرمایا:
”فلا تجالسوھم ولاتشاربوھم ولاتؤاکلوھم ولاتناکحوھم“
ترجمہ: نہ تم اُن کے پاس بیٹھو، نہ ان کے ساتھ کھاؤ، نہ ان کے ساتھ پیو اور نہ ہی ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو۔ (کنزالعُمّال، جلد11، صفحہ 529، حدیث: 32468، مؤسسۃ الرسالۃ)
امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: " ایسے شخص سے بیعت کا حکم ہے جو کم از کم یہ چاروں شرطیں رکھتا ہو: اول سنی صحیح العقیدہ ہو۔ دوم علم دین رکھتاہو۔ سوم فاسق نہ ہو۔ چہارم اس کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک متصل ہو۔ اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کی اجازت نہیں۔ " (فتاوٰی رضویہ، جلد 21، صفحہ 603، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
پیر کی شرائط بیان کرتے ہوئے مزیدفرمایا: "دوسری شرط فقہ کا اتنا علم کہ اپنی حاجت کے سبب مسائل جانتا ہو اور حاجتِ جدید پیش آئے تو اس کا حکم کتاب سے نکال سکے۔ بغیر اس کے اور فنون کا کتنا ہی بڑا عالم ہو عالم نہیں۔ " (فتاویٰ رضویہ، جلد26، صفحہ575، 576، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4237
تاریخ اجراء: 25ربیع الاول1447 ھ/19ستمبر 2520 ء