
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس کو جو بھی، جتنا بھی، جب بھی کچھ ملتا ہے، وہ تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے توسط اور توسل سے ہی ملتا ہے، لیکن بعض اوقات ان نعمتوں اور عطاؤں کو تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توسط کے بجائے، صحابۂ کرام، اہلِ بیت عظام، سیدہ کائنات، حسنین کریمین، غوثِ اعظم رضوان اللہ علیہم اجمعین، یا دیگر اولیاء کرام کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے جو بھی ملتا ہے، جیسے بھی، جہاں سے بھی، جب بھی ملتا ہے، وہ انہی حضرات کے صدقے سے ملتا ہے۔تو سوال یہ ہے کہ تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علاوہ ان حضرات کی طرف منسوب کرنا مناسب ہے؟کیونکہ اگر ہر عطا اور خیر کو دوسرے بزرگوں کی طرف منسوب کرتے جائیں گے، تو تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وہ انفرادی، مرکزی، اور حقیقی حیثیت تو نہیں رہے گی۔ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مُنعِم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے اپنی نعمتوں کےلئے وسائل مقرر فرمائے ہیں خواہ وہ وسائل قصد و اختیار والے ہوں یا وسیلہ محض ہوں اور ہر قسم کے اسباب و وسائل کی طرف نعمتوں کی نسبت قرآن و احادیث میں نہایت کثرت سے وارِد ہے جس کی تفصیل کےلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی کتاب ’’الامن و العلی‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
انسان کا اپنے اوپر آنے والی نعمتوں اور عطاؤں کوعمومی طور پر تاجدارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے صحابۂ کرام، اہلِ بیت عظام، سیدہ کائنات، حسنین کریمین، غوثِ اعظم رضوان اللہ علیہم اجمعین، یا دیگر اولیاء کرام کی طرف منسوب کر نے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ یہ درحقیقت اُسی وسیلہ عظمیٰ کے وسیلہ در وسیلہ کی گواہی ہے جو اصل میں محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دَر سے جاری ہوتی ہے۔ اس نسبت سے نہ تو شانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں کوئی کمی آتی ہے، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی انفرادیت و مرکزیت پر کوئی فرق پڑتا ہے۔ ہاں! کوئی خاص عطا، کسی خاص معنیٰ و مفہوم اور انداز میں کسی متعین ہستی کی طرف منسوب کی جائے تو اس کی پوری تفصیل سامنے رکھتے ہوئے کچھ مختلف کلام بھی ہوسکتا ہے۔
اولاً: خود کئی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانی ثابت ہے کہ لوگوں کو اُن کے ضعیفوں اور کمزوروں کے سبب رزق دیا جاتا اور ان کی مدد کی جاتی ہے۔ یونہی احادیث کریمہ میں اولیائے کرام کی ایک قسم ابدالوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ اُنہیں کی واسطہ و وسیلہ سے لوگوں کو رزق دیا جاتا، اُن کی مدد کی جاتی، اُن پر بارشیں نازل کی جاتی ،اُن سے بلاؤں کو دور كيا جاتا او ر اُن كی حاجت روائیاں کی جاتی ہیں۔ الغرض واضح طور پر نعمتوں کے ملنے کی نسبت بطورِ وسیلہ کے اُن کی طرف کی گئی ہے۔
ثانیاً: یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کائنات میں تصرفات و اختیارات رب کریم عزوجل کی عطا سے حاصل ہوئےہیں، اسی طرح اولیائے کرام کو بھی کائنات میں تصرفات اور روحانی اختیارات حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیابت اور وسیلے سے ملے ہیں ،لہذا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم، اللہ عزوجل کے نائب وخلیفہ ہیں، اور یہ سب حضرات ،حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نائب و خلیفہ کی حیثیت سے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روحانی حکومت کے نمائندے ہیں۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بالا کی طرف ہرنعمت کے ملنے کو منسوب کرنے میں اللہ عزوجل کی عطا کا انکار نہیں ہوتا، کیونکہ اصل دینے والی ذات تو اللہ تعالی ہی کی ہے،اسی طرح کسی صحابی، اہل بیت،یا کسی بزرگ کی طرف نعمتوں کے ملنے کو منسوب کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مرکزیت و انفرادیت میں کوئی فرق نہیں آتا،کیونکہ اولیائے کرام کو یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے در بار سے ہی عطا ہوئی ہے، یعنی اللہ عزوجل عطا کرنے والا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رب تعالی کی عطا کو تقسیم فرمانے والے ہیں اور اولیائے کرام اس تقسیم کے اگلے وسیلے ہیں۔
ثالثاً: قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے حضور شفاعت فرمائیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے حضور علماء و اولیاء اپنے عقیدت مندوں کی شفاعت فرمائیں گے، کیونکہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وسیلہ کے بغیر اللہ عزوجل تک رسائی نہیں ہوسکتی، یونہی صحابہ کرام،اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیائے کرام علیہم الرحمۃ کے وسیلہ کے بغیر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک بھی رسائی نہیں ہوسکتی۔تو جب اولیاء وعلمائے کرام کی شفاعت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت کی مرکزیت ختم نہیں ہوگی، تو پھر اولیائے کرام کی طرف نعمتوں کے ملنے کو منسوب کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مرکزیت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ یہ عمومی نسبت کے اعتبار سے کلام ہے۔
رابعاً: اولیائے کرام کی طرف اس نسبت سے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مرکزیت ختم تو کیا، بلکہ اس میں چار چاند لگ جاتے ہیں، کیونکہ جس طرح نعمتوں کے ملنے کی نسبت جان عالم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف کرنے سے شانِ ربوبیت میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اس کے بیان میں اضافہ ہی ہوتا ہےکہ جس ذات کی عطاسے اُس کا نبی اتنے اختیار رکھتا ہے تو اس رب کے اختیارات کا کیا عالم ہو گا۔ اسی طرح جب جان عالم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے توسل و وسیلہ سے اولیاء کرام کا یہ مقام ہے، تو خود نبی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا مقام و مرتبہ کس قدر اَرفع و اعلٰی ہو گا۔
ترتیب وار جزئیات ملاحظہ کریں:
بہت سی حدیثیں ہیں جس میں رزق، مدد، بارشوں کےملنے جیسی بہت سی نعمتوں کو اولیاء کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:
صحیح بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:
قال النبي صلى اللہ عليه وسلم: «هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم»
ترجمہ: کیا تمہیں مدد اور رزق (کسی دوسرے سبب سے بھی) ملتا ہے، سوائے تمہارے کمزوروں کے۔ (صحیح البخاری، جلد 4، صفحہ 36، رقم الحدیث: 2896،دار طوق النجاۃ)
مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح میں مفتی احمد یارخان نعیمی علیہ الرحمۃ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’یعنی اے سعد! تمہاری سخاوت تو دولت سے ہے اور شجاعت طاقت و قوت سے مگر دولت، قوت، فتح، (یہ سب) فقراء کی برکت سے (ہے)۔ وہ تم حضرات کے لیے وسیلہ عظمٰی ہیں۔ اس سے توسل ثابت ہوا۔ یہاں مرقات میں فرمایاکہ فقراء مسلمین بندوں کے لیے قطب اور اوتاد ہیں جیسے خیمہ میخوں اور قطب چوب سے قائم ہے ایسے ہی دنیا ان لوگوں سے قائم ہے۔ فقراء کی برکت سے بندوں کو رزق ملتا ہے، ان کے طفیل بارشیں ہوتی ہیں، غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملنے کا ذریعہ یہ لوگ ہیں‘‘۔ (مراۃ المناجیح، جلد 7، صفحہ 43، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: «الأبدال يكونون بالشام، و هم أربعون رجلا، كلما مات رجل أبدل اللہ مكانه رجلا، يسقى بهم الغيث، وينتصر بهم على الأعداء، و يصرف عن أهل الشام بهم العذاب»
ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ابدال شام میں ہوں گے، اور وہ چالیس مرد ہوں گے۔ جب بھی ان میں سے ایک فوت ہو جاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرا مقرر فرما دیتا ہے۔ انہی کی وجہ سے بارش دی جاتی ہے، انہی کی برکت سے دشمنوں پر مدد حاصل کی جاتی ہے، اور انہی کے سبب شام والوں سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔ (مسند احمد، جلد 2، صفحہ 231، رقم الحدیث: 896، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
کنز العمال کی حدیث مبارکہ ہے:
الأبدال في أمتي ثلاثون، بهم تقوم الأرض؛ و بهم تمطرون، وبهم تنصرون
ترجمہ: ابدال میری امت میں تیس ہیں، انہیں سے زمین قائم ہے، انہیں کے سبب تم پر بارشیں نازل کی جاتی ہے اور انہیں کے باعث تمہاری مددکی جاتی ہے۔
اسی میں ہے:
إن الأبدال بالشام يكونون وهم أربعون رجلا، بهم تسقون الغيث، و بهم تنصرون على أعدائكم، و يصرف عن أهل الأرض البلاء و الغرق
ترجمہ: ابدال شام میں ہوں گے، اور وہ چالیس مرد ہوں گے، انہیں کے سبب تم بارش سے سیراب کئے جاؤ گے اور انہیں کے سبب تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کی جائے گی، اور انہیں کے سبب اہل زمین سے بلا اورغرق کو دور کیا جائے گا۔
اسی میں ہے:
الأبدال في أهل الشام، و بهم تنصرون، و بهم ترزقون
ترجمہ: ابدال شام میں ہیں ،وہ انہیں کی برکت سے مدد پاتے ہیں اورانہیں کی وسیلہ سے رزق پاتے ہیں۔(کنز العمال، جلد 12، صفحہ 186، رقم الحدیث: 34593، 34594، 34595، مؤسسة الرسالة، بیروت)
ان مذکورہ احادیث اور دوسری بہت سی احادیث کو نقل کرنے کے بعدسیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’دیکھو! بشہادت خدا و رسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رزق پانا، مدد ملنا، مینہ برسنا، بلادور ہونا، دشمنوں کی مغلوبی، عذاب کی موقوفی، یہاں تک کہ زمین کا قیام، زمین کی نگہبانی، خلق کی موت، خلق کی زندگی، دین کی عزت، امت کی پناہ، بندوں کی حاجت روائی، راحت رسانی سب اولیاء کے وسیلے، اولیا ء کی برکت، اولیاء کے ہاتھوں، اولیاء کی وساطت سے ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 403، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ عزوجل کے نائب و خلیفہ ہیں، چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’اما م اجل سیدی ابن حجر مکی'' جو ہر منظم'' میں فرماتے ہیں:
انہ صلی تعالٰی علیہ وسلم خلیفۃ ﷲ الذی جعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت ارادتہ یعطی منھا من یشاء ویمنع من یشاء۔
بے شک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور اپنی نعمتوں کے خوان حضور کے دست قدرت کے فرمانبردار اور حضور کے زیر حکم وارادہ واختیار کردئے ہیں کہ جسے چاہیں عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہیں نہیں دیتے۔ (ت)‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 310، 311، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اولیاء اللہ کو جو مراتب عطا ہوتے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے طفیل سے ہی ہوتے ہیں، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ایں مرتبہ ازان مراتب کہ ہیچکس رااز بشر نہ دادہ اند، مگر بہ طفیل این محبوبے بَرخے ازاولیاء است اُو را شمہ ازمحبوبیت آن نصیب شدہ و مسجود خلائق و محبوب دلہا گشتہ اند مثل حضرت غوث الاعظم وسلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ سرہما
ترجمہ: یہ مرتبہ ان مراتب میں سے ہے جو کسی بشر کو (ذاتی طور پر) نہیں دیا گیا، مگر اس محبوب (نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) کے طفیل کچھ اولیاء کو عطا ہوا ہے، اور انہیں بھی یہ مقام اسی محبوبیت کے حصہ سے ملا ہے۔ وہ خلائق کے سجدہ گاہ (محترم و مکرم)، اور دلوں کے محبوب بن گئے، جیسے حضرت غوث الاعظم اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہما اللہ۔ (تفسیر عزیزی، جلد 4، سورۃ الم نشرح، صفحہ 229، مطبوعہ کوئٹہ)
اولیائے کرام، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب و خلیفہ ہیں، چنانچہ فتاوی رضویہ میں سید ی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ’’امام اجل سیدی نور الدین ابوالحسن علی شطنوفی قد س سرہ الرؤفی کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف میں خود روایت فرماتے ہیں:
کان شیخنا الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ یمشی فی الھواء علی رؤوس الاشھاد فی مجلسہ و یقول ماتطلع الشمس حتی تسلم علی وتجئی السنۃ الی و تسلم علی و تخبرنی ما یجری فیھا و یجیء الشھر و یسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ، و یجیئ الاسبوع و یسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ و یجیئ الیوم و یسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ و عزۃ ربی ان السعداء والاشقیاء لیعرضون علی عینی فی اللوح المحفوظ انا غائص فی بحار علم اللہ ومشاھد تہ انا حجۃ اللہ علیکم جمیعکم انا نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم و وارثہ فی الارض
ہمارے شیخ حضور سیدنا عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سےبلند کرہ ہوا پر چلتے اور ارشاد فرماتے کہ آفتاب طلوع نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرلے؛ نیا سال جب آتا ہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے؛ نیا ہفتہ جب آتاہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے؛ نیا دن جوآتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے، مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم! کہ تمام سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ پرلگی ہے یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے، میں اللہ عزوجل کے علم ومشاہدہ کے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں، میں تم سب پرحجت الہٰی ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا نائب اور زمین میں حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم) کا وارث ہوں‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 292، 293، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے: ’’اولیائے کرام کو اﷲ عزوجل نے بہت بڑی طاقت دی ہے، ان میں جو اصحابِ خدمت ہیں، اُن کو تصرّف کا اختیار دیا جاتا ہے، سیاہ، سفید کے مختار بنا دیے جاتے ہیں، یہ حضرات نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے نائب ہیں، ان کو اختیارات وتصرفات حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی نیابت میں ملتے ہیں‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 1، صفحہ 267، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اللہ عزوجل کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات وسیلہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف اولیائے کرام وسیلہ ہیں،چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے فتاوی رضویہ میں فرمایا: ’’قرآن عظیم نے حکم فرمایا: و ابتغوا الیہ الوسیلۃ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ اللہ کی طرف وسیلہ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف وسیلہ مشائخ کرام، سلسلہ بہ سلسلہ۔ جس طرح اللہ عزوجل تک بے وسیلہ رسائی محال قطعی ہے، یونہی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک رسائی بے وسیلہ دشوار عادی ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صاحب شفاعت ہیں اللہ عزوجل کے حضور وہ شفیع ہونگے اور ان کے حضور علماء واولیاء اپنے متوسلوں کی شفاعت کریں گے، مشائخ کرام دنیا ودین و نزع وقبر و حشر سب حالتوں میں اپنے مریدین کی امداد فرماتے ہیں۔
میزان الشریعہ میں ارشاد فرمایا:
قد ذکرنا فی کتاب الاجوبۃ عن ائمۃ الفقہاء والصوفیۃ ان ائمۃ الفقہاء والصوفیۃ کلہم یشفعون فی مقلدیہم ویلا حظون احدہم عندطلوع روحہ وعند سوال منکر ونکیر لہ وعند النشر و الحشر و الحساب و المیزان و الصراط و لا یغفلون عنہم فی موقف من المواقف الخ۔
تحقیق ہم نے ذکر کیا ہے کتاب الاجوبہ عن ائمۃ الفقہاء و الصوفیہ میں کہ فقہاء اور صوفیہ سب کے سب اپنے متبعین کی شفاعت کریں گے او ر وہ اپنے متبعین اور مریدین کے نزع کی حالت میں روح کے نکلنے اور منکر نکیر کے سوالات نشر وحشر اورحساب اور میزان عدل پر اعمال تلنے اور پل صراط گزرنے کے وقت ملاحظہ فرماتے ہیں اور تمام مواقف میں سے کسی ٹھہرنے کی جگہ سے غافل نہیں ہوتے الخ (ت)۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 464، 465، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-808
تاریخ اجراء: 06 محرم الحرام 1447ھ /02 جولائی 2025ء