دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کسی جامع شرائط پیر صاحب کا مرید ہو اور اس کے پیر صاحب کا انتقال ہوجائے تو کیا اس انتقال کی وجہ سے پیر صاحب سے کی ہوئی بیعت ٹوٹ جاتی ہے ؟ کیا اس کو کسی دوسرے پیر صاحب سے مرید ہونا جائز ہے ؟یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ اگر پیر صاحب نے کسی کو اپنا جانشین و خلیفہ مقرر کیا ہو اور یہ اس جانشین سے اس نیت سے بیعت کرے کہ یہ میں اپنے مرحوم پیر صاحب سے ہی بیعت کررہا ہوں ، تو اب یہ اپنے پیر صاحب کا ہی مرید کہلائے گا ؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔
سائل: محمد مبشر ( شفیق موڑ، کراچی)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پیر کا انتقال ہوجانا بیعت ٹوٹ جانے کے اسباب میں سے نہیں ،لہٰذا جو شخص کسی جامع شرائط پیر کا مرید ہو اور اس کے پیر صاحب کا انتقال ہوجائے تو وہ اب بھی انہیں کا مرید ہے، اس کیلئے بلا وجہ شرعی کسی اور کا مرید ہونا جائز نہیں، جیساکہ پیر صاحب کی زندگی میں بھی اس کیلئے یہی حکم تھا، البتہ تربیت اور حصول فیض کے لئے کسی دوسرے جامع شرائط پیر کا طالب ہونے میں حرج نہیں اور طالب ہونے کی صورت میں اس دوسرے پیر سے جو فیوض و برکات حاصل ہوں، اسے اپنے پہلے پیر ہی کی عطا جانے، یونہی اگر پیر صاحب نے کسی کو اپنا جانشین و خلیفہ بنایا تھا اور پیر صاحب کے انتقال کے بعد کسی مرید نے اپنے مرحوم پیر صاحب سے بیعت کی نیت سے اس جانشین سے تجدید بیعت کی تو یہ اپنے مرحوم پیر صاحب ہی کی بیعت کہلائے گی اور وہ بدستور انہیں کا مرید رہے گا ۔
پیر کے انتقال سے بیعت نہیں ٹوٹتی، یونہی مرحوم پیر صاحب سے بیعت کی نیت سے اس کے مقرر کردہ جانشین و خلیفہ سے تجدید بیعت کرنے کی صورت میں اسی پیر کا مرید کہلائے گا، جانشین کا مرید نہیں کہلائے گا، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیا: ”احمد ایک ولی اللہ امام وقت کا مرید وغلام اور امام ممدوح کی طرف سے مجاز وماذون ہے بعد وصال شریف اپنے شیخ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احمد کو بوجہ کثرت ذنوب خیال تجدید بیعت آیا، بایں لحاظ احمد نے مولانا حسین بن حسن خلیفہ وسجادہ نشین حضرت شیخ سے بیعت کی مگر کبھی اپنا شیخ حضرت ولی اللہ امام ممدوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا دوسرے کو نہ جانا، اب جانشین موصوف کو بوجہ تجدید مذکور یہ خیال ہے کہ احمد میرا مرید ہے اوراحمد اپنے ذہن میں اپنی بیعت اولیٰ پر ہے۔ اس صورت میں امرحق کیاہے؟“
تو آپ علیہ الرحمۃنے جواباً ارشاد فرمایا: ”صورت مستفسرہ میں احمد کا خیال صحیح ہے، وہ اپنی بیعت اولیٰ پر ہے، بوجہ تجدید مذکور جانشین موصوف کا مرید قرار نہ پائے گا۔
فانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی
(یعنی: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اورہر آدمی کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی۔ ت)جب حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خطائے اجتہادی سے رجوع فرماکر دست حق پر ست حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ پر تجدید بیعت چاہی ظالم کے ہاتھ سے زخمی ہوچکے تھے، امیر المومنین علی تک وصول کی طاقت نہ تھی، امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر کا ایک سپاہی گزرا ،اسے بلاکر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے ہاتھ پر تجدید بیعت فرمائی اور روح اقدس جوار اقدس رحمت الٰہی میں پہنچی،امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ نے یہ حال سن کر فرمایا:
ابی ﷲ ان یدخل طلحۃ الجنۃ الا و بیعتی فی عنقہ
(اللہ عزوجل نے طلحہ کاجنت میں جانا نہ مانا جب تک میری بیعت ان کی گردن میں نہ ہو۔ت)
دیکھو! امیر المومنین نے اس بیعت کو اپنی ہی بیعت قرار دیا نہ کہ لشکری کی، اور حضرت طلحہ نے امیر المومنین ہی کو امیر المومنین مستحق بیعت سمجھا نہ کہ معاذاللہ لشکری کو۔
ذانک برھانان من ربک وقد عرضتہ علی محقق الشریعۃ و الطریقۃ مولانا محب الرسول عبدالقادر القادری البدایونی حفظہ ﷲ تعالٰی فاقرہ وصوبہ و استحسنہ و اعجبہ، وﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
(یہ دونوں دلیلیں تیرے رب کی طرف سے ہیں اور تحقیق میں نے پیش کیا اس کو شریعت و طریقت کے محقق مولانا محب رسول عبدالقادر قادری بدایونی پر، اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے ، پس انہوں نے اس کو ثابت رکھا اور اس کو درست قرار دیا اور اس کو اچھا جانا اور پسندیدہ قرار دیا، اور اللہ تعالیٰ پاک ہے ہر عیب سے اور برتر ہے، سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس جل مجدہ کا علم جلیل ہی اتم اور مضبوط ہے۔ت) (فتاوی رضویہ، ج 21، ص 493، رضا فاونڈیشن، لاہور)
تاج الشریعہ حضرت مفتی اختررضا خان قادری علیہ الرحمۃ سے پیر کے انتقال کی صورت میں بیعت باقی ہونے نہ ہونے اور اس کا اعادہ و تجدید لازم ہونے نہ ہونے کے متعلق سوال ہوا، تو جوابا ارشاد فرمایا: ”پیر کی وفات ہوگئی ہو تو وہی بیعت کافی ہے۔ بیعت اگر صحیحہ شرعیہ ہو تو اعادے کی حاجت نہیں اور تجدید کرے تو حرج بھی نہیں۔“ (فتاوی تاج الشریعہ، ج 02، ص 17، شبیر برادرز)
لہٰذا جب بیعت باقی ہے، تو اب بلاوجہ شرعی کسی دوسرے پیر سے بیعت ہونے کی اجازت نہیں ، کہ اس صورت میں یا تو ایک وقت میں دو پیروں کا مرید ہونا کہلائے گا یا پہلے پیر کی بیعت توڑ کر دوسرے کا مرید ہونا اور دونوں ہی درست نہیں، البتہ طالب ہونا، درست ہے، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے پیر کے انتقال کے بعد دوسرے سے بیعت ہونے کے متعلق سوال ہوا، تو جوابا ارشاد فرمایا: ” دوسرے شیخ سے طالب ہو ،مگر اپنی ارادت شیخ اول ہی سے رکھے اور اس سے جو فیض حاصل ہو وہ اپنے پیر ہی کی عطا جانے۔ اولیاء کرام فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے دو باپ نہیں ہوسکتے ، ایک عورت کے دو شوہر نہیں ہوسکتے ، ایک مرید کے دو شیخ نہیں ہوسکتے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 26، ص 580، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید ایک اور مقام پر اسی طرح کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :” جہل سے طلب اولیٰ ہے مگر پیر صحیح سے انحراف جائز نہیں، جو فیض ملے اسے اپنے شیخ ہی کی عطا جانے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج26، ص584، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0635
تاریخ اجراء: 14 ربیع الاول 1447ھ/08 ستمبر 2025ء