
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ غیر مسلم ممالک میں عام طور پر چھوٹی چھوٹی لائٹوں والی لڑیاں (ایل ای ڈی لائٹس) کرسمس پر بھی استعمال ہوتی ہیں، کیا مسلمان کے لیے میلاد یا دیگر ایونٹس پر انہیں لگانا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عام طور پر مارکیٹ میں دستیاب مذکورہ لائٹنگ مطلقاً زیب و زینت اور ڈیکوریشن (Decoration) کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور یہ کسی قوم، مذہب یا تہوار کے ساتھ خاص نہیں ہوتیں، لہذا میلاد شریف اور دیگر جائز تقریبات (Events) میں ان کا استعمال کرنا بالکل جائز ہے، اگرچہ یہ کرسمس کے لیے بھی استعمال ہوتی ہوں؛ کہ نہ تو یہ کرسمس کے ساتھ خاص ہیں اور نہ ممانعت کی کوئی اور وجہ ہے، اس لیے کہ یہ محض تزئینی اشیا میں سے ہیں، جنہیں مسلم و غیر مسلم سب ہی شادی، برتھ ڈے اور دیگر تقریبات وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں، پس ان میں کوئی تشبہ نہیں۔ البتہ وہ خاص لائٹیں جو کرسمس کی ڈیکوریشن کے لیے مخصوص ہوتی ہیں یا ان کے لگانے کا انداز کرسمس کے ساتھ خاص ہے حتی کہ اگر کہیں لگی نظر آئیں تو دیکھنے والے کا ذہن ان سے کرسمس ہی کی طرف جاتا ہے، تو بہرحال ایسی لائٹیں میلاد شریف اور دیگر ایوینٹس پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی؛ کیونکہ ان میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کا عنصر واضح ہے جو کہ ممنوع و ناجائز ہے۔
سنن ابی داؤد، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، مشکوۃ المصابیح وغیرہ کی حدیث پاک ہے:
و اللفظ للاول ”عن ابن عمر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم: من تشبه بقوم فهو منهم“
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ انہیں میں سے ہے۔ (سنن أبي داود، كتاب اللباس، باب في لبس الشهرة، جلد 4، صفحہ 44، حدیث 4031، المكتبة العصرية، بيروت)
علامہ شرف الدین حسین بن عبد اللہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 743ھ / 1342ء) اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:
هذا عام في الخلق و الخلق و الشعار و إذ كان الشعار أظهر في التشبه
ترجمہ: یہ حدیث پاک شکل و صورت، اخلاق اور شعار کے متعلق عام ہے، کیونکہ شعار (علامتی طور طریقے) تشبہ میں زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ (شرح المشكاة للطيبي، كتاب اللباس، جلد 9، صفحہ 2901، مطبوعه ریاض)
علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:
اعلم أن التشبيه بأهل الكتاب لا يكره في كل شيء و إنا نأكل و نشرب كما يفعلون إنما الحرام هو التشبه فيما كان مذموما و فيما يقصد به التشبيه كذا ذكره قاضي خان في شرح الجامع الصغير
ترجمہ: جان لو کہ اہلِ کتاب کی مشابہت ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے، ہم بھی کھاتے پیتے ہیں جیسا کہ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔ حرام محض وہ تشبہ ہے جو ان امور میں ہو جو مذموم (برے) ہیں یا جن سے (اصل) ارادہ ہی تشبیہ کا ہو۔ ایسا ہی علامہ قاضی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرح جامع صغیر میں ذکر کیا ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، جلد 2، صفحہ 11، دار الكتاب الإسلامي)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”اس جنس مسائل میں حقِ تحقیق وتحقیقِ حق یہ ہے کہ تشبہ دو وجہ پر ہے: التزامی و لزومی۔ التزامی یہ ہے کہ یہ شخص کسی قوم کے طرز و وضع خاص اسی قصد سے اختیار کرے کہ ان کی سی صورت بنائے، ان سے مشابہت حاصل کرے، حقیقۃً تشبہ اسی کا نام ہے،... اور لزومی یہ کہ اس کا قصد تو مشابہت کا نہیں مگر وہ وضع اس قوم کا شعار خاص ہو رہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیدا ہوگی۔... اور لزومی میں بھی حکمِ ممانعت ہے، جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ ہوں، جیسے انگریڑی منڈا، انگریزی ٹوپی، جاکٹ، پتلون، اُلٹا پردہ، اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگر آخر شعار ہیں تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ، و لہذا علماء نے فساق کی وضع کے کپڑے موزے سے ممانعت فرمائی۔... مگر اس کے تحقق کو اس زمان و مکان میں ان کا شعار خاص ہونا قطعاً ضرور، جس سے وہ پہچانے جاتے ہوں اور ان میں اور ان کے غیر میں مشترک نہ ہو ورنہ لزوم کا کیا محل، ہاں وہ بات فی نفسہ شرعاً مذموم ہوئی تو اس وجہ سے ممنوع یا مکروہ رہے گی، نہ کہ تشبہ کی راہ سے۔ ... اس تحقیق سے روشن ہو گیا کہ تشبہ وہی ممنوع و مکروہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارِخاص یا فی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 530-534 ملتقطاً، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1423ھ / 2001ء) لکھتے ہیں: ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اس قوم میں سے ہے۔ (احمد و ابو داؤد) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم کی ہر وہ چیز جو ان کے لیے اس طرح خاص ہو کہ اگر مسلم اسے استعمال کرے تو غیر مسلم ہونے کا اس پر دھوکا ہو تو اس کا استعمال کرنا مسلمانوں کے لیے ناجائز ہے۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 2، صفحہ 512 - 513، اکبر بک سیلرز، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-839
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1447ھ / 29 جولائی 2025ء