نابالغ کا ولی کی اجازت کے بغیر بیعت کرنا کیسا؟

نابالغ بچے کا ولی کی اجازت کے بغیر پیر کامل سے بیعت ہونا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایک شخص نے نابالغی لیکن باشعوری کی عمر میں ایک جامع شرائط پیر سے بیعت کے لیے والدہ سے اجازت لی، تو ماں نے کہا اپنے والد سے پوچھ لیں۔ پھر والد سے اجازت لیے بغیر مرید ہوگیا۔ پھر پیر صاحب کے وصال فرمانے کے بعد اس طرف توجہ گئی کہ والد سے اجازت نہیں لی تھی، تو اب کیا کرنا چاہئے؟ اگر اب والد کو اطلاع دے دیں تو وہی بیعت باقی رہے گی یا دوسرے پیر سے نئی بیعت کرنی ہو گی؟ اور والد بھی وفات پاچکے ہوں، تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں جب سمجھدار نابالغ نے جامع شرائط پیر صاحب سے بیعت کر لی، تو وہ ان کا مرید ہو گیا، اب ولی (یعنی سرپرست مثلا باپ) کی اجازت سے دوبارہ بیعت کی ضرورت نہیں، کیونکہ جامع شرائط پیر سے مرید ہونا فائدے والا کام ہے اور جس کام میں نابالغ کا فائدہ ہو، وہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی درست ہوتا ہے۔

فتاوی رضویہ میں ہے "نابالغ اگر ناسمجھ ہے تو بے اجازت ولی اسے مرید کرنے کے کوئی معنی نہیں۔۔۔۔ اور اگر عاقل ہے اور اس کی رغبت دیکھے تو مرید کر سکتا ہے، اجازت والدین کی حاجت نہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان قادِری رَضوی رحمۃ اللہ علیہ سے ولی کی اجازت کے بغیرنابالغ کے بیعت کرنے کے متعلق سوال ہوا تواس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”بیعت درست ہے، جبکہ جامع شرائط شیخ سے بیعت کی ہو کہ اس میں نابالغ کا صَلاح و نفع (فائدہ) ہے اور نابالغ کا ایسا تصرف حقِ جواز رکھتا ہے۔ لہٰذا شرعا یہ بیعت جائز ہو گی۔ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد 2، صفحہ 36، 39، اکبر بک سیلرز، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4243

تاریخ اجراء: 15ربیع الاول1447ھ/09ستمبر2025ء