Bait Ke Liye Peer Ke Hath Mein Hath Dene Ka Hukum

بیعت کے لیے پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کاحکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3541

تاریخ اجراء:10شعبان المظم1446ھ/09فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بیعت ہونے کے لیے پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

                                                                                   بیعت ہونے کے لیے پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری نہیں بلکہ کسی شخص، میسج، کال یا  خط کے ذریعے بھی بیعت ہو سکتی ہے۔

   شیخ الاسلام، اعلی حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات: 1340ھ) سے سوال ہوا کہ ایک شخص گویاکلکتہ میں ہے اور اس کے دل میں ہے کہ میں مرید ہوجاؤں تواچھا،  مگروہ جس سے مرید ہوناچاہتاہے وہ دوسرے ملک میں ہے، پھر وہ کس طرح سے مرید ہوسکتاہے؟ اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں :" بیعت بذریعہ خط وکتابت بھی ممکن ہے، یہ اُسے درخواست لکھے وہ قبول کرے اوراپنے قبول(کرنے) کی اس درخواست دہندہ (درخواست کرنے والے)کواطلاع دے اور اس کے نام کاشجرہ بھی بھیج دے، مریدہوگیا(کیوں) کہ اصل ارادت، فعلِ قلب ہے۔"(فتاوی رضویہ، جلد26، صفحہ567،568، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ایک دوسرے مقام پر سوال ہوا کہ اگر کسی شخص کو کسی بزرگ سے عقیدت ہو اور بوجہ دوری وہ شخص اس بزرگ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے تو وہ شخص اس بزرگ سے کیسے مرید ہو سکتا ہے  یا ہو ہی نہیں سکتا کسی طرح پر ؟اس کے جواب میں شیخ الاسلام اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"بذریعہ قاصد یا خط مرید ہو سکتا ہے۔"(فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحۃ584-585، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم