فرشتوں اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ایصالِ ثواب کرنا

جو مسلمان ابھی پیدا نہیں ہوئے، ان کواور فرشتوں کو ایصالِ ثواب کرنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا یہ دعا کرنا درست ہے کہ یا اللہ! اس نماز کا ثواب قیامت تک آنے والے تمام مومنین انسانوں اور جنات کو پہنچا دے، اور اسی طرح قیامت تک کے تمام فرشتوں کو بھی اس کا ثواب عطا فرما۔ یا اللہ! ہماری یہ دعا قبول فرما۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی بالکل! یہ دعا کرنا درست ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تمام مومن انسانوں اور مومن جنوں اور تمام فرشتوں کو ایصال ثواب کرنا درست ہے بلکہ افضل ہے کہ سب کو ثواب پہنچ جائے گا اور اپنے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اور یہ یاد رہے کہ ایصال ثواب جس طرح عذاب کو روکنے یا ہونے والے عذاب کودور کرنے میں کام آتا ہے، اسی طرح درجات کی بلندی اورنیکیوں میں اضافے کے لیے بھی کام آتا ہے، لہذا جو عذاب سے محفوظ اور گناہوں سے پاک ہیں، ان کو کیا جانے والا ایصال ثواب ان کے درجات کی بلندی، نیکیوں اور ثواب میں اضافے کا سبب بنتاہے۔

مسلم شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:

أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، و يبرك في سواد، و ينظر في سواد، فأتی بہ، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، و أخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: باسم اللہ، اللّٰهم تقبل من محمد، و آل محمد، و من أمة محمد، ثم ضحى به

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے بکرے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلے، سیاہی میں بیٹھے، سیاہی میں دیکھے، آپ کی خدمت میں حاضر کیا گیا، فرمایا: عائشہ چھری لاؤ، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرلو، میں نے کرلیا پھر آپ نے چھری پکڑی اور بکرا پکڑ کر لٹایا، اسے ذبح کاارادہ کیا تو یہ دعاکی: بِسْم اللہ،الٰہی! اسے محمدصلی اللہ علیہ و سلم، آل محمدصلی اللہ علیہ و سلم اور امت محمدصلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قبول فرما۔ پھر اس کی قربانی کی۔ (صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 1557، حدیث: 1967، دار احیاء التراث، بیروت)

مذکورہ حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے

و من أمة محمد. قال الطيبي: المراد المشاركة في الثواب مع الأمة لأن الغنم الواحد لا يكفي عن اثنين فصاعدا

ترجمہ: "امتِ محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے" علامہ طیبی نے فرمایا: یہاں امت کو ثواب میں شریک کرنا مراد ہےکیونکہ ایک بکری دو یا دو سے زائد افراد کی طرف سے کفایت نہیں کرتی۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب فی الاضحیۃ، جلد 3، صفحہ 1079، دار الفكر، بيروت(

اور ظاہر ہے کہ اس وقت تک ساری امت پیدانہیں ہوئی تھی، لہذاجوابھی پیدانہیں ہوئے، ان کوایصال ثواب کرنا، اس سے ثابت ہوا۔

رد المحتار میں ہے

الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء

ترجمہ: جو نفل صدقہ کرے اس کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام مومنین و مومنات کی نیت کرے کیونکہ وہ ان سب کو ملے گا اور اس کے اجر سے کچھ نہ گھٹے گا۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 357، مطبوعہ: بیروت)

البحر الرائق میں ہے

لا فرق بین ان یکون المجعول لہ میتا او حیا

ترجمہ: اس میں کوئی فرق نہیں کہ جس کو ثواب پہنچایا جائے وہ وفات پا چکا ہو یا زندہ ہو۔ (البحر الرائق، جلد 3، صفحہ 63، دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی رضویہ میں ہے: ”حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے طفیل میں تمام انبیاء و اولیاء و مومنین و مومنات جو گزر گئے اور جو موجود ہیں اور جو قیامت تک آنے والے ہیں سب کو شامل کر سکتا ہے اور یہی افضل ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 9 صفحہ 622، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے ”ایصال ثواب جس طرح منعِ عذاب یا رفعِ عقاب میں باذن اللہ تعالیٰ کام دیتا ہے یونہی رفعِ درجات وزیادت حسنات میں اور حق سبحانہ و تعالیٰ کے فضل اور اس کی زیادت وبرکت سے کوئی غنی نہیں۔۔۔ جب حق جل وعلا کی دنیوی برکت سے بندہ کوغنا نہیں تو اس کی دینی برکت سے کون بے نیاز ہوسکتا ہے۔ صلحاء تو صلحاء خود اعاظم اولیاء بلکہ حضرات انبیاء بلکہ خود حضور پر نور نبی الانبیاء علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ایصال ثواب زمانہ صحابہ کرام رضی ا تعالیٰ عنہم سے اب تک معمول ہے حالانکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام قطعاً معصوم ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 607، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ملفوظات اعلی حضرت میں ہے ”عرض: حضور جب رسل و ملائکہ معصوم ہیں تو ان کو علیہ الصلوٰۃ والسلام کہہ کر ایصال ثواب کرنے کی کیا ضروت ہے؟ ارشاد: اول تو علیہ الصلوۃ والسلام ایصال ثواب نہیں بلکہ اظہار تعظیم ہے، اور ان پر نزول درود و سلام کی دعا اور ہو بھی تو ملائکہ زیادت ثواب سے مستغنی (یعنی بے نیاز) نہیں۔“ (ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ 127، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

احکام شریعت میں ہے ”درود جیسے علیہ الصلٰوۃ والسَّلام یہ تو ملائکہ کے لیے ہے، یہی ایصالِ ثواب بھی کر سکتے ہیں۔

لاِن الملائکۃ اھل الثواب کما ذکرہ امام الرازی وفی رد المحتار للملائکۃ فضائل علینا فی الثواب

 ترجمہ: کیونکہ فرشتے بھی ثواب کے اہل ہوتے ہیں، جیسا کہ امام رازی نے ذکر کیا اور رد المحتار میں بھی ہے کہ فرشتوں کو ازروئے ثواب ہم پر کئی اعتبار سے فضیلتیں حاصل ہیں۔ (احکام شریعت، صفحہ 181، کتب خانہ امام احمد رضا، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4375

تاریخ اجراء: 07 جمادی الاولٰی 1447ھ / 30 اکتوبر 2025ء