شفاء حاصل کرنے کیلئے پیر صاحب کا اپنے بال دینا کیسا؟

شفا حاصل کرنے کے لیے پیر صاحب کا اپنے بال دینا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی پیر صاحب کا یا ولی کا اپنی داڑھی یا زلفوں کے بال دینا کہ اس کو پانی میں ڈال کر پانی پینے سے شفا حاصل ہو گی، ایسا کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بزرگانِ دین کے آثار اور ان کی استعمال کی ہوئی چیزوں، کپڑوں وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا اور برکت و شفا کی امید رکھنا شرعاً ثابت و جائز ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برکت اور شفا کی غرض سے اپنے بال مبارک عطا فرمائے اور صحابہ کرام نے ان سے برکت و شفا حاصل کی۔ اولیاء اللہ درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم و معارف اور انوار و برکات کے وارث ہوتے ہیں، حضور علیہ السلام کے وسیلہ و توسط سے ان حضرات سے بھی نسبت رکھنے والی چیزوں میں برکت و شفا ہوتی ہے، لہذا اگر کسی جامع شرائط پیر صاحب یا ولی اللہ نے شفا کی غرض سے اپنے بال عطا کیے تو یہ شرعی اعتبار سے ممنوع عمل نہیں۔جلیل القدر محدثین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تبرکات عطا فرمانے والی احادیث کی شرح میں بار بار لکھا ہے کہ ان احادیث میں نیک لوگوں کے تبرکات سے فائدہ اٹھانے کی دلیل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال مبارک صحابہ کرام میں تقسیم فرمائے، چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے:

عن أنس بن مالك، قال: لما رمى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الجمرة و نحر نسكه و حلق ناول الحالق شقه الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه، ثم ناوله الشق الأيسر،فقال:احلق فحلقه، فأعطاه أبا طلحة، فقال:اقسمه بين الناس

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی ذبح فرمائی اور اپنا سر مبارک منڈوایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام کو اپنے سر  مبارک کا سیدھی طرف والا حصہ دیا، تو اس نے وہاں کے بالوں کو مونڈا، پھر آپ نے حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ بال ان کو عطا فرما دیئے ، پھر آپ نےبائیں طرف والا حصہ دیا اور فرمایا: "مونڈو" تو اس نے وہ بھی مونڈ دیا، پھر وہ (بھی) حضرت ابوطلحہ کو دیئے اور فرمایا: اسے لوگوں میں تقسیم کر دو۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 948، رقم الحدیث: 326 - (1305)، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مراٰۃ المناجیح میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’بزرگوں کے تبرکات خصوصًا حضور کے بال و ناخن شریف سنبھال کر رکھنا، ان کی زیارت کرنا، ان سے شفا حاصل کرنا، ان کے توسل سے دعائیں مانگنا، قبر میں انہیں ساتھ لے جانا سب جائز و بہتر ہے کہ یہ تقسیم انہی مقاصد کے لیے ہوتی تھی‘‘۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 262، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

بزرگان دین کے آثار سے برکت پر یہ حدیث مبارک اور اس کی شرح بھی ملاحظہ کریں۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث پاک ہے:

عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال: أتيت النبي صلى اللہ عليه و سلم بمكة و هو بالأبطح في قبة له حمراء من أدم، قال: فخرج بلال بوضوئه، فمن نائل وناضح

ترجمہ: حضرت عون بن ابی جحیفہ، اپنے والد ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ میں مکہ مکرمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام’’ابطح“ میں سرخ چمڑے کے ایک خیمے میں تھے، فرمایا کہ پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کے وضو کا پانی لے کر نکلے تو کوئی اسے حاصل کرنے والا ہوا اور کوئی چھڑکنے والا۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 359، رقم الحدیث: 249 - (503)،دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اس حدیث کی شرح میں علامہ ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’المنہاج شرح صحيح مسلم‘‘ میں فرماتے ہیں:

(فمن نائل وناضح) معناه فمنهم من ينال منہ شيئا و منهم من ينضح عليه غيره شيئا مما ناله ويرش عليه بللا مما حصل له و هو معنى ما جاء في الحديث الآخر فمن لم يصب أخذ من يد صاحب۔۔۔۔ فيه التبرك بآثار الصالحين و استعمال فضل طهورهم و طعامهم و شرابهم و لباسهم

ترجمہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو خود اس (وضو کے پانی) سے کچھ پا لیتے، اور کچھ وہ تھے جن پر دوسرے لوگ چھڑک دیتے، یعنی جو تری کسی کو ملی تھی وہ اس سے دوسرے پر چھڑک دیتا، اور یہی معنی اس دوسری حدیث کے ہیں کہ جو خود نہ پا سکا، اس نے اس کے ہاتھ سے لیا جس نے پا لیا تھا۔۔۔ (بہرحال) اس حدیث سے بزرگان دین کے آثار، اور ان کے وضو کے بچے ہوئے پانی،کھانے اور مشروب اور لباس سے تبرک حاصل کرنا ثابت ہوتا ہے۔ (المنهاج شرح صحيح مسلم، جلد 4، صفحہ 219، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

اولیاء اللہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں، چنانچہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”برکت آثار بزرگان سے انکار آفتاب روشن کا انکار ہے۔۔۔ اور پُر ظاہر کہ اولیاء وعلماء حضور کے ورثاء ہیں، تو ان کے آثار میں برکت کیوں نہ ہوگی کہ آخر وارث برکات ووارث ایراث برکات ہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 404، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-909

تاریخ اجراء: 06 ربیع الاخر1447ھ /30 ستمبر 2025ء