
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی بزرگ کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے کئی سال عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی ہو زید کہتا ہے کہ یہ لوگوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں، حقیقت میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص پورا سال نیند نہ کرے۔ رہنمائی فرمائیں کہ زید کی بات کہاں تک درست ہے اور اس طرح کا کوئی واقعہ ہے، تو کس کتاب میں ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اس طرح کے واقعات کئی اولیائے کرام کے بارے میں معتبر کتب میں منقول ہیں۔ زید کا انکار بے بنیاد و بلا دلیل ہےاور اس کا یہ کہنا کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی پورا سال نیند نہ کرے، بھی لائقِ التفات نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اولاً تو یہ اس کااپنا مفروضہ ہے کہ وہ اصلا ًنیند ہی نہیں کرتے تھے، ساری رات عبادتِ الہٰی میں مصروف رہنا دن میں کچھ آرام کر لینے سے مانع تو نہیں، لہٰذاہو سکتا ہے دن وہ میں کچھ آرام فرمالیتے ہوں۔ ثانیاً بالفرض مان لیا جائے کہ نیند نہ کرتے تھے، توکیا یہ ان واقعات کے ا نکار کی دلیل ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ کہا جائے گا کہ یہ ان کی کرامت تھی اور کرامت اسی کو تو کہتے جو کام ولی سےخارق ِعادت صادر ہو، پھر عادت کو انکار کی دلیل بنانا کم فہمی و کم علمی نہیں توکیا ہے۔ بطور اختصار چند واقعات ملاحظہ فرمائیے۔
علامہ علاؤ الدین الحصکفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے مناقب بیان کرتے ہو لکھتے ہیں:
”و قد صلی الفجر بوضوء العشاء اربعین سنۃ“
یعنی امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نےچالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی“ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 1، ص 126، دار المعرفۃ)
امام غزالی علیہ الرحمۃ احیاء العلوم میں نقل فرماتے ہیں :
”وقد كان ذلك طريق جماعة من السلف كانوا يصلون الصبح بوضوء العشاء حكى أبو طالب المكي أن ذلك حكي على سبيل التواتر والاشتهار عن أربعين من التابعين وكان فيهم من واظب عليه أربعين سنة قال منهم سعيد بن المسيب وصفوان بن سليم المدنيان وفضيل بن عياض ووهيب بن الورد المكيان وطاوس ووهب بن منبه اليمانيان والربيع بن خيثم والحكم الكوفيان وأبو سليمان الداراني وعلي بن بكار الشاميان وأبو عبد الله الخواص وأبو عاصم العباديان وحبيب أبو محمد وأبو جابر السلماني الفارسيان ومالك بن دينار سليمان التيمي ويزيد الرقاشي وحبيب بن أبي ثابت ويحيى البكاء البصريون“
یعنی سلف صالحین کی ایک جماعت کا یہ طریقہ تھا کہ وہ عشاء کے وضوسے فجر کی نماز ادا فرماتے تھے۔ ابو طالب مکی نے حکایت کیا کہ یہ واقعات تواتر کےساتھ منقول ہیں اور چالیس تابعین کے بارے میں یہ مشہور ہے اوران میں سے بعض تو وہ تھے جو چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے رہے۔ فرمایا ان میں سے سعيد بن المسيب، صفوان بن سليم مدینہ کے رہنے والے،فضيل بن عياض، وہيب بن الورد مکہ کے رہنے والے اور طاوس و وهب بن منبه یمن کے رہنے والےاورربيع بن خيثم، حكم کوفہ کے رہنے والے اور ابو سليمان الدارانی و علی بن بكار شام کے رہنے والےاورابو عبد الله الخواص و ابو عاصم العباديان اور حبيب ابو محمد و ابو جابر السلمانی فارس کے رہنے والےا ورمالك بن دينار سليمان التيمي و يزيد الرقاشی و حبيب بن ابی ثابت ويحيى البكاء بصرہ کے رہنے والے ہیں (جو چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرماتے رہے) (إحياء علوم الدين، ج 1، ص 359، دار المعرفة)
مزید اسی میں:
”وقال بعضهم رأيت رب العزة في النوم فسمعته يقول وعزتي وجلالي لأكرمن مثوى سليمان التيمي فإنه صلى لي الغداة بوضوء العشاء أربعين سنة“
یعنی بعض بزرگان دین نے اللہ عزوجل کو خواب میں دیکھا اوراللہ عزوجل کو فرماتے ہوئے سنا کہ ''مجھے اپنی عزت او رجلال کی قسم! میں سلیمان تیمی کے ٹھکانے کو ضرور عزت والا بناؤں گا کیونکہ اس نے چالیس سال تک میرے لئے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ۔ (إحياء علوم الدين،ج1،ص356، دار المعرفة)
بہار شریعت میں ہے: ”سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا اعلیٰ علیین میں ہونا قطعاً تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ آپ اس درجہ عابد و زاہد، متقی اور صاحب ورع تھے کہ چالیس سال تک آپ نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی اور آپ (رحمۃ اللہ تعالی علیہ) نے اپنے رب (عزوجل) کا سوبار خواب میں دیدار فرمایا“ (بہار شریعت، ج 3، حصہ 19، ص 1040، مکتبۃ المدینہ)
مراۃ المناجیح میں ہے: ”جن بزرگوں سے منقول ہے کہ انہوں نے تیس یا چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی جیسے حضور غوث اعظم یا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہما وہ حضرات رات میں اس قدر اونگھ لیتے تھے جس سے تہجد درست ہوجائے لہذا ان بزرگوں پر یہ اعتراض نہیں کہ انہوں نے تہجد کیوں نہ پڑھی حضرت ابوالدرداء، ابو ذرغفاری وغیر ہم صحابہ جو شب بیدار تھے، ان کا بھی یہی عمل تھا۔“ (مراۃ المناجیح، باب صلاۃ اللیل، ج 2، ص 233، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: Lar-6144
تاریخ اجراء: 13 صفرالمظفر 1438ھ / 14 نومبر 2016ء