کیا غوث اعظم کہنا شرک ہے؟

شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہنا شرک ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جب ہم حضرت عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہتے ہیں تو بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ شرک ہے، کیا یہ درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

غوث کے معنی ”فریاد رس اور حاجت روا“ کے ہیں اور غوث اعظم کا معنی ”بڑا فریاد رس“ ہے۔ چونکہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات ولایت کے اعلی مقام و مرتبے پر فائز ہے اور آپ سے دیگر اولیائے امت فیض پاتے ہیں، نیز آپ اپنے حلقے میں سب سے بڑھ کر فریاد رسی اور مدد کرنے والے ہیں، اس لیے آپ کو غوث اعظم کہا جاتا ہے، اور اس میں کوئی شرک کا پہلو نہیں؛ کیونکہ بلا شبہ محبوبانِ خدا رب تعالیٰ کی عطا سے مخلوق کی فریاد رسی اور حاجت روائی کرتے ہیں، یہی عقیدۂ اہل سنت ہے جو کہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے، لہٰذا سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو غوث اعظم کہنا ہرگز شرک نہیں، بلکہ یہ صدیوں سے علما و صلحا، مفسرین و محدثین اور عامۂ مسلمین میں رائج ہے۔ اسے شرک کہنا بالکل غلط، بلکہ اکابر علمائے دین اور عامۂ مسلمین کو کافر قرار دینے کے مترادف ہے جو کہ سراسر باطل و ناجائز اور گمراہی و بد دینی ہے۔

کسی شخص یا چیز کو فریاد رس و حاجت روا جاننا اس وقت شرک ہوگا جب اسے ذاتی طور پر بغیر عطائے الہی ایسا مانا جائے؛ کیونکہ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اور کوئی بھی مسلمان کسی غیر کے بارے میں ہرگز ایسا عقیدہ نہیں رکھتا۔ مسلمان اسی اعتقاد کے ساتھ اولیائے کرام کو غوث، دستگیر، داتا، مشکل کشا اور حاجت روا کہتے ہیں کہ وہ اللہ کریم کی عطا اور اس کی توفیق سے مدد گار ہیں اور وہ بارگاہِ ایزدی میں بہتر وسیلہ و واسطہ ہیں۔ حقیقی حاجت روائی و مدد صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، وہی قادر بالذات و فاعل حقیقی ہے، اور امداد و حاجت روائی کی نسبت ان اللہ والوں کی طرف محض مجازی ہوتی ہے، جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:

﴿فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ- وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(4)﴾

ترجمہ کنز العرفان: تو بے شک اللہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہیں۔ (پارہ 28، سورۃ التحریم 66، آیت 4)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1391ھ) لکھتے ہیں: ”اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے مددگار ہیں؛ کیونکہ اس آیت میں حضرت جبرئیل اور صالح مسلمانوں کو مولیٰ یعنی مددگار فرمایا گیا اور فرشتوں کو ظہیر یعنی معاون قرار دیا گیا، جہاں (قرآن پاک میں) غیر اللہ کی مدد کی نفی ہے وہاں حقیقی مدد مراد ہے، لہذا آیت میں تعارض نہیں۔ (تفسیر نور العرفان، صفحہ 895، فرید بکڈپو، دہلی)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ) لکھتے ہیں: ”(ارشاد باری تعالیٰ ہے:)

﴿اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ﴾

یعنی اے مسلمانو! تمہارا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے اور وہ رکوع کرنے والے ہیں۔(سورۃ المائدۃ، آیت 55) أقول (میں کہتا ہوں): یہاں اللہ اور رسول اور نیک بندوں میں مدد کو منحصر فرما دیا کہ بس یہی مددگار ہیں تو ضرور یہ مدد خاص ہے، جس پر نیک بندوں کے سوا اور لوگ قادر نہیں، عام مددگاری کا علاقہ تو ہر مسلمان کے ساتھ ہے۔

قال تعالٰی:﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ﴾

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ (سورۃ التوبہ، آیت 71)حالانکہ خود ہی دوسری جگہ فرماتا ہے:

﴿مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ﴾

اللہ کے سوا کسی کا کوئی مددگار نہیں۔ (سورۃ الکہف، آیت 26) معالم میں ہے:

(مَا لَهُمْ) أي: ما لأهل السموات والأرض (مِنْ دُوْنِهٖ) أي: من دون اللہ (مِنْ وَّلِیٍّ) ناصر

 (یعنی نہیں ہے ان کے لیے یعنی آسمان اور زمین والوں کے لیے سوا اُس کے یعنی سوا اللہ تعالیٰ کے کوئی ولی یعنی مددگار۔) مخالف صاحبو! تمہارے طور پر معاذ اللہ کیسا کھلا شرک ہوا کہ قرآن نے خدا کی خاص صفت امداد کو رسول و صلحا کے لیے ثابت کیا، جسے قرآن ہی جا بجا فرما چکا تھا کہ یہ اللہ کے سوا دوسرے کی صفت نہیں مگر بحمد اللہ اہل سنت دونوں آیتوں پر ایمان لاتے، اور ذاتی اور عطائی کا فرق سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ بالذات مددگار ہے، یہ صفت دوسرے کی نہیں اور رسول و اولیا اللہ کے قدرت دینے سے مددگار ہیں، وللہ الحمد۔ (فتاوی رضویہ، جلد 30،صفحہ 420-421 بتغیر، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

المعجم الکبیر، الترغیب و الترہیب اور کنز العمال وغیرہ کی حدیث پاک ہے:

عن ابن عمر، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن لله عز وجل خلقا خلقهم  لحوائج  الناس  يفزع الناس إليهم في حوائجهم أولئك الآمنون من عذاب اللہ

 ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ عزوجل کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں اس نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے پیدا کیا ہے، لوگ اپنی حاجتوں کے معاملے میں ان سے فریاد کرتے ہیں، وہی بندے اللہ کے عذاب سے امان میں ہیں۔ (المعجم الكبير للطبراني، جلد 12، صفحہ 358، حدیث 13334، مطبوعہ القاهرة)

جمع الجوامع للسیوطی اور کنز العمال وغیرہ میں مروی حدیث پاک میں ہے:

يا موسى كن للفقير كنزا و للضعيف حصنا و للمستجير  غيثا

 ترجمہ: اے موسیٰ! فقیر کے لیے خزانہ بن جاؤ، کمزور کے لیے قلعہ بن جاؤ اور پناہ مانگنے والے کے لیے غوث (یعنی فریاد رس و مددگار) بن جاؤ۔ (جمع الجوامع، جلد 3، صفحہ 233، حدیث 8714، مطبوعہ القاهرة)

علامہ ابو قاسم حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 502ھ) لکھتے ہیں: الغوث يقال في النصرة“ ترجمہ: غوث امداد و حمایت (کے معنی) میں کہا جاتا ہے۔ (المفردات في غريب القرآن، صفحہ 617، دار القلم، بيروت)

اردو لغت میں ہے: ”غوث: فریاد کو پہنچنے والا، فریاد رس، حاجت روا، ولایت الہی کا ایک درجہ، ولیِ کامل۔ غوث اعظم: بڑا فریاد رس، ولیوں کا سردار، مراد: شیخ عبد القادر جیلانی۔“ (اردو لغت تاریخی اصول پر، جلد 13، صفحہ 762-763 ملتقطاً، اردو لغت بورڈ، کراچی)

محدث کبیر علامہ نور الدین ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1014ھ) لکھتے ہیں:

القطب و يقال له الغوث هو الواحد الذي هو محل نظر اللہ تعالى من العالم في كل زمان، أي: نظرا خاصا يترتب عليه إفاضة الفيض و استفاضته، فهو الواسطة في ذلك بين اللہ تعالى وبين عباده، فيقسم الفيض المعنوي على أهل بلاده بحسب تقديره و مراده... قلت: فهم الأقطاب في الأقطار، يأخذون الفيض من قطب الأقطاب المسمى  بالغوث  الأعظم، فهم بمنزلة الوزراء تحت حكم الوزير الأعظم

ترجمہ: قطب جسے غوث بھی کہا جاتا ہے، وہ واحد ہستی ہوتی ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت کا مرکز ہوتی ہے، یعنی ایسی خاص نظر کا جس پر فیض جاری ہونے اور پھیلنے کا دار و مدار ہوتا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان اس فیض کے پہنچنے میں واسطہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے اندازے اور چاہت کے مطابق اپنے بلاد والوں پر معنوی فیض تقسیم کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں: پس وہ تمام اقطاب جو اطراف عالم میں ہیں، وہ قطب الأقطاب سے فیض حاصل کرتے ہیں، جسے غوث اعظم کہا جاتا ہے، اور وہ سب بحیثیت ان وزرا کے ہوتے ہیں جو وزیرِ اعظم کے زیرِ حکم ہیں۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الفتن، باب أشراط الساعة، جلد 8، صفحہ 3442، دار الفكر، بيروت)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی لکھتے ہیں:

مولانا و سیدنا تاج المفاخر الذي خضع له رقاب الاكابر القطب الربانی و الغوث الاعظم الصمداني سلطان الاولياء و العارفين الباز الاشهب و السيف الاشطب و الطراز المذهب السيد الشريف شيخ الاسلام محي الملة و الدين عبد القادر الحسني و الحسيني الجيلاني قدس اللہ روحه و فتح علينا فتوحه

ترجمہ واضح ہے۔ (نزهة الخاطر الفاتر، صفحہ 9، موسسة الشرف، لاھور)

شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1052ھ) لکھتے ہیں:

سيدنا و مولانا  الغوث  الأعظم محيي الدين أبو محمد عبد القادر الجيلاني رحمه اللہ

 ترجمہ واضح ہے۔

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، كتاب الجنائز،جلد4،صفحہ 43، دار النوادر، دمشق)

اسی طرح علامہ ابو الفداء اسماعیل حقی (سال وفات: 1127ھ)،

علامہ ابو الحسن محمد بن عبد الہادی ٹھٹھوی (سال وفات: 1138ھ)،

قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی مظہری (سال وفات: 1225ھ)،

علامہ سید محمد امین بن عمر ابن عابدین شامی (سال وفات: 1252ھ)،

علامہ شہاب الدین محمود بن عبد اللہ آلوسی (سال وفات: 1270ھ)،

علامہ ابو حسنات محمد عبد الحی لکھنوی (سال وفات: 1304)،

علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی (سال وفات: 1350ھ) وغیرہم کثیر علمائے دین نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو غوث اعظم، غوث الثقلین اور غوث اکبر جیسے القابات سے ذکر کیا ہے، حتی کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لیے ان الفاظ کا استعمال ان حضرات نے بھی کیا جنہیں مخالفین اپنا پیشوا و مقتدا مانتے ہیں۔

چنانچہ امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ) لکھتے ہیں:” حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرور دستگیر ہیں...تمام مسلمانوں کی زبانوں پر حضور کا لقب "غوث اعظم" ہے، یعنی سب سے بڑے فریاد رس۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور شاہ عبد العزیز صاحب درکنار خود پیشوائے مخالفین نے جا بجا حضور کو غوث اعظم یاد کیا ہے، یہ فریاد رسی و دستگیری نہیں تو کیا ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 105- 106بتغیر قلیل، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات و مالک مستقل و غنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتا ہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے۔ نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے، بلکہ واسطۂ وصول و فیض و ذریعہ و وسیلۂ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعاً حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالیٰ نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا:

﴿وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾

اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 303، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نیز مزید فرماتے ہیں: ”استعانت بالغیر وہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہر عونِ الٰہی نہ جانے، بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عونِ الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتا ہے تو شرک و حرمت بالائے طاق، مقامِ معرفت کے بھی خلاف نہیں، خود حضرات انبیا و اولیا علیہم الصلوۃ و السلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 325، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ) لکھتے ہیں: ”معلوم ہوا کہ اسناد مجازی جائز ہے، جبکہ اسناد (نسبت) کرنے والا غیر خدا کو مستقل فی التصرف اعتقاد نہ کرتا ہو۔ اسی لیے یہ کہنا جائز ہے کہ یہ دوا نافع ہے، یہ مضر ہے، یہ در دکی دافع ہے، ماں باپ نے پالا، عالم نے گمراہی سے بچایا، بزرگوں نے حاجت روائی کی وغیرہ، سب میں اسناد مجازی ہے، اور مسلمان کے اعتقاد میں فاعل حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب وسائل (ہیں)۔“ (تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 92، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نوٹ: اس بارے میں مزید تفصیلی دلائل اور معلومات کے لیے علمائے اہل سنت کی کتب، خصوصاً سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رسالے "برکات الامداد لاھل الاستمداد " کا مطالعہ فرمائیں۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-930

تاریخ اجراء: 26 ربيع الآخر 1447ھ / 20 اکتوبر 2025ء