نورانیت مصطفی پر دلائل اور حضور کے نور ہونے پر اہل سنت کا عقیدہ

کیا حضور نور ہیں؟ حضور ﷺ کے نور ہونے کے بارے میں عقیدہ اور ایک اعتراض کا جواب

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل کے بارے میں کہ کیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نور ہیں؟  قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔

نیز یہ کہ زید کا کہنا ہے کہ جس حدیثِ جابر سے آپ لوگ استدلال کرتے ہیں، وہ روایت معنی کے اعتبار سے درست نہیں، کیونکہ اس میں فرمایا گیا: نور نبیک من نورہ تویہاں حرف  مِنْ تبعیضیہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز سے اس کا کوئی جزیا کچھ حصہ لینا، جدا کر لینا، جیسا کہ کہا جاتا ہے: خلق الانسان من طین

یعنی انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا، تو انسان کے اندر مٹی کا جز شامل ہے، تو اس لحاظ سے حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کے نور سے کچھ حصہ جدا کر کے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نور پیدا کیا گیا، جو قطعاً درست نہیں، بلکہ کفر ہے، لہٰذا اس حدیث کو دلیل بنانا درست نہیں۔

کیا زید کا یہ اعتراض درست ہے؟ اگر نہیں تو اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

حضورسرورِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم حقیقت کے اعتبار سے نور اور صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر ہیں، آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے نور ہونے پر بکثرت آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور اقوالِ ائمہ امت موجود ہیں۔

 رہا سوال میں مذکور الفاظِ حدیث نور نبیک من نورہ پر اعتراض! تواس کا جواب یہ ہے کہ حرف   مِنْ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مقام پرحرف مِنْ تبعیض کے لیے نہیں، بلکہ بیانیہ و ابتدائیہ ہے، جس کا مفاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نور سے کسی چیز کے واسطے کے بغیر آپ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا نور پیدا کیا، لہٰذا زید کا اسے  مِنْ تبعیضیہ سمجھنا درست نہیں۔

جیساکہ خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک ماہرعیسائی طبیب نے علامہ علی واقدی سے مناظرہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ تمہاری کتاب (قرآن پاک) کی اس آیت  وَ كَلِمَتُهٗۚ- اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘

ترجمہ کنزالعرفان: اور اس کا ایک کلمہ ہے، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کی جز و حصہ ہیں، کیونکہ آیت میں موجود حرف  مِنْ تبعیضیہ ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اللہ کےجزوحصہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اس کے جواب میں علامہ علی واقدی نے یہ آیت پیش کی: وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْهُ

ترجمہ:  اور تمہارے لیے وہ سب چیزیں مسخر کیں، جو آسمانوں اور جو زمین میں ہیں، سب اس کی طرف سے ہیں۔  پھر فرمانے لگے کہ اے عیسائی! اگر تمہاری بات (مِنْ تبعیضیہ والی) مان لی جائے، تو اس آیت سے لازم آئے گا کہ سب چیزیں اللہ تعالی کی ذات کا جز و حصہ ہوں، عیسائی لاجواب ہوگیا اور اسلام قبول کرلیا۔ (روح البیان، جلد 3، صفحہ 200، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

اللہ پاک زید کو بھی حق قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے نور ہونے کے متعلق اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

 قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ

ترجمہ: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا اور روشن کتاب۔ (القرآن، سورة المائدہ، آیت 15)

مذکورہ بالا آیت کی تفسیرمیں متعدد اقوال ہیں۔ جن میں سے ایک قول یہ ہے کہ آیت میں نور سے مراد محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کی ذات مبارک ہے، جیسا کہ تفسیرابن عباس، تفسیر کبیر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، تفسیر جلالین، تفسیر صاوی، تفسیر خازن، تفسیر نسفی، روح البیان،روح المعانی ،تفسیر ابو سعود، زاد المسیر، تفسیربغوی، تفسیر قرطبی، تفسیر بیضاوی، تفسیر ثعالبی میں ہے:

و اللفظ للاول(قد جاءکم من اللہ نور رسول اللہ یعنی محمد

بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور رسول اللہ یعنی محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم آئے۔ (تفسیر ابن عباس، صفحہ 72، مطبوعہ مصطفی البابی، مصر)

امام بخاری و مسلم کے استاذ الاستاذ امام محدث عبد الرزاق علیہم الرحمۃ نے ”اَلْمُصَنَّف“ میں روایت کیا اور یہ حدیث مواہب اللدنیہ، شرح زرقانی، کشف الخفاء، السیرةالحلبیہ، تاریخ الخمیس، جواہر البحار، تفسیرروح المعانی، شرح قصیدہ بردہ، الحدیقۃ الندیہ، فتاوی حدیثیہ، حجة اللہ علی العالمین، المدخل، المورد الروی وغیرھا کتبِ اسفار میں ہے:

عن جابر بن عبد اللہ قال: قلت یا رسول اللہ بأبی انت و امی أخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالی قبل الاشیاء، قال: یا جابر! ان اللہ تعالی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ، فجعل ذلک النور یدور بالقدرة حیث شاء اللہ تعالی…… الخ

ترجمہ: حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالی علیہ و سلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ مجھے خبر دیجئے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے جابر! اللہ تعالی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نورکو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور یہ نور اللہ کی مشیت سے، جہاں چاہتا سیرکرتا رہتا ..... . الخ۔ (الجزء المفقود من الجزء الاول، صفحہ 63، رقم الحدیث 18، مطبوعہ بیروت۔ مواھب اللدنیہ، ج 01، ص 71، مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت۔ شرح المواہب للزرقانی ، ج 01، ص 89، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت۔ کشف الخفاء، ج 01، ص 311، مطبوعہ موسسة الرسالة، بیروت۔ السیرة الحلبیہ، ج 01، ص 50، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت۔ تاریخ الخمیس، ج 01، ص 19، مطبوعہ موسسة الشعبان بیروت۔ جواھر البحار، ج 04، ص 220، مطبوعہ مصطفی البابی مصر۔ تفسیر روح المعانی، ج 08، ص 71، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔ شرح قصیدہ بردہ، صفحہ 73، مطبوعہ نورمحمد۔ الحدیقة الندیہ، ج 02، ص 375، مطبوعہ مکتبہ رضویہ۔ فتاوی حدیثیہ، صفحہ 247، مطبوعہ مصطفی البابی، بیروت۔ حجة اللہ علی العالمین، صفحہ 28، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ۔ المدخل، ج 02، ص 34، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت۔ المورد الروی، صفحہ 40، مطبوعہ بیروت)

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشادفرمایا: اول ما خلق اللہ نوری و من نوری خلق کل شیئ۔ و فی روایة خلق جمیع الکائنات

ترجمہ: اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا اور میرے نورسے ہر چیز کو پیدا کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میرے نور سے تمام کائنات کو پیدا کیا۔ (مطالع المسرات ، صفحہ 121، مطبوعہ مکتبہ نوریہ۔ میلاد النبوی لابن جوزی، صفحہ 22، مطبوعہ بیروت)

خصائص الکبری، المواہب اللدنیہ، شرح المواہب، السیرة الحلبیہ، کشف الخفاء میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم قال: کنت نورا بین یدی ربی قبل خلق آدم علیہ السلام باربعة عشر الف عام

ترجمہ: بیشک نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنے رب کے حضور آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے بھی چودہ ہزار سال پہلے نور تھا۔ (خصائص الکبری، باب خصوصیة النبی، جلد 01، صفحہ 07، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

امام احمد بن محمد عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

قال تعالی یا ادم ! ارفع راسک فرفع راسہ فرای نور محمد فی سرادق العرش فقال: یارب! ماھذا النور؟ قال: ھذا نور نبی من ذریتک اسمہ فی السماء احمد و فی الارض محمد لو لاہ ما خلقتک و لا خلقت سماء و لا ارضا

ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: اے آدم! اپنے سر کو اٹھاؤ، پس انہوں نے اپنے سر کو اٹھایا اور نورِ محمد صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو عرش کے پایوں میں جلوہ گر دیکھا، تو عرض کی: اے میرے رب! یہ کس کا نور ہے؟ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: یہ تیری اولاد میں سے ایک نبی کا نورہے، جن کا آسمان میں نام احمد ہوگا اور زمین میں محمد ہوگا، اگر میں انہیں پیدا نہ کرتا، تو نہ تمہیں پیدا کرتا، نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا۔(المواھب اللدنیہ، جلد 01، صفحہ 09، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

حرفِ مِنْ کے بیانیہ ہونے کے متعلق امام ابو عبد اللہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

و ھی بیانیۃ، ای: من نور هو ذاته لا بمعنى انها مادة خلق نوره منها بل بمعنى تعلق الارادة به بلا واسطة شیء فی وجوده

ترجمہ: اور (اس حدیث پاک میں) مِنْ بیانیہ ہے، یعنی اس نور سے پیدا کیا، جو اللہ پاک کی ذات ہے، یہ مطلب نہیں کہ اللہ پاک کی ذات مادہ ہے، جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نور پیدا کیا گیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نور کے ساتھ کسی چیز کے واسطے کے بغیر اللہ پاک کے ارادے کا تعلق ہوا۔ (شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ، جلد 1، صفحہ 90، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں: ”حدیث میں ”نورہ“ فرمایا: جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے، من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ (اپنے جمال کے نور سے یا اپنے علم کے نور سے یا اپنی رحمت کے نور سے) وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالیٰ اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں:

(من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ

یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس نور سے پیدا کیا، جو عین ذات الٰہی ہے، یعنی اپنی ذات سے بلا واسطہ پیدا فرمایا۔۔۔ ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کے لیے مادہ ہے، جیسے مٹی سے انسان پیدا ہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ، ذاتِ نبی ہو گیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اور کسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرمانے سے پاک و منزہ ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 665، 666، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ عَمرو کہتا ہے کہ نور محمدی کا انفکاک ذات سے ہوا ہے، تو جواب لکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”عمرو کا قول سخت باطل و شنیع و گمراہی فظیع، بلکہ سخت تر امر کی طرف منجر ہے، اللہ عز و جل اس سے پاک ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات سے جدا ہو کر مخلوق بنے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 30، صفحہ 660، 661، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے رب کا نور ہونے کے نہ تویہ معنی ہیں کہ حضور خدا کے نور کا ٹکڑا ہیں، نہ یہ کہ رب کا نور حضور کے نور کا مادہ ہے، نہ یہ کہ حضور علیہ السلام خدا کی طرح ازلی ابدی ذاتی نور ہیں، نہ یہ کہ رب تعالیٰ حضور میں سرایت کر گیا ہے، تا کہ شرک و کفر لازم آئے۔“ (رسالہ نور، صفحہ 6، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مقالات کاظمی میں ہے:  اس حدیث میں نور کی اضافت بیانیہ ہے اور نور سے مراد ذات ہے، حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے نور پاک یعنی ذات مقدسہ کو اپنے نور یعنی اپنی ذات مقدسہ سے پیدا فرمایا، اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ذات حضور کی ذات کا مادہ ہے یا نعوذ باللہ! حضور کا نور اللہ کے نور کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ہے۔ تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا۔“ (مقالات کاظمی، جلد 1، صفحہ 56، مکتبۃ ضیائیہ، راولپنڈی)

علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں: (کچھ لوگوں) نے سمجھا کہ لفظِ مِن تبعیضیہ ہے، لہذا یہ معنی کشید کیا کہ اللہ تعالی نے اپنے نور کا ایک حصہ الگ کر کے آپ کے وجود کو تیار کیا، یہ خیال نہ کیا کہ لفظ مِن کئی دوسرے معنوں کے لیے بھی آتا ہے۔

درسِ نظامی کی ابتدائی کتاب ”مأتہ عامل“ میں وہ معانی دیکھے جا سکتے ہیں، اس جگہ لفظ مِن ابتدائیہ، اتصالیہ ہے، جس کا مفاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نور سے کسی چیز کے واسطے کے بغیر آپ کا نور پیدا کیا اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔  (عقائد و نظریات، صفحہ 284، مطبوعہ مکتبہ قادریہ، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Sar-8093

تاریخ اجراء: 29 ربیع الاول 1444ھ / 26 اکتوبر 2022ء