
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ہم میلاد کیوں مناتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ہم میلاد النبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کا جشن مناتے ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم ترین انعام، یعنی نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی دنیا میں تشریف آوری پر اپنی بے پناہ خوشی اور شکر گزاری کا اظہار کر سکیں۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی ولادت صرف ایک شخصیت کی پیدائش نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت، ہدایت اور روشنی کی آمد ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح آپ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے جہالت اور گمراہی کے اندھیروں کو ختم کر کے علم و حکمت اور امن و سلامتی کا نور پھیلایا۔ میلاد کی محافل کا مقصد آپ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی سیرتِ طیبہ، آپ کی تعلیمات اور آپ کے اُسوہ حسنہ کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنے کا عزم کرنا ہے، تاکہ ہمارے دلوں میں عشقِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی شمع مزید روشن ہو۔ لہٰذا، میلاد منانا دراصل اُس محسنِ انسانیت سے اپنی والہانہ عقیدت، محبت اور اللہ کے فضلِ عظیم پر شکرانے کا اجتماعی اظہار ہے اور ان کے اسوہ حسنہ کواپنے لیے مشعل راہ بنانے کےعزم کا اظہار ہے۔نعمت پر خوشی کرنے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا﴾
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔ (القرآن الکریم، پارہ 11، سورۃ یونس، آیت: 58)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔ (القرآن الکریم، پارہ 30، سورۃ الضحی، آیت: 11)
آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی دنیا میں تشریف آوری پر صحابہ کرام کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے متعلق سنن نسائی شریف میں ہے:
قال معاوية رضي اللہ عنه: إن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم خرج على حلقة يعني من أصحابه فقال: «ما أجلسكم؟» قالوا: جلسنا ندعو اللہ و نحمده على ما هدانا لدينه، و من علينا بك، قال: «آللہ ما أجلسكم إلا ذلك؟» قالوا: آللہ ما أجلسنا إلا ذلك، قال: «أما إني لم أستحلفكم تهمة لكم، وإنما أتاني جبريل عليه السلام فأخبرني أن اللہ عزوجل يباهي بكم الملائكة»
ترجمہ: حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و الہ و سلم اپنے اصحاب علیہم الرضوان کے ایک حلقہ کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کس چیز نے تمہیں یہاں بٹھایا ہے؟ انہوں نے عرض کی: ہم بیٹھ کر اللہ تعالی کو پکار رہے ہیں اوراس کی حمد (شکر ادا) کررہے ہیں، اس پر کہ اُس نے ہمیں اپنے دین پر چلایا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالی کی قسم دیتے ہوکہ تمہیں صرف اسی بات نے یہاں بٹھایا ہے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ تعالی کی قسم ہے کہ ہمیں صرف اسی بات نے یہاں بٹھایا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سنو میں نے تم پر تہمت کی وجہ سے تم سے قسم نہیں لی، میرے پاس جبریل علیہ الصلوۃ و التسلیم آئے، تو انہوں نے مجھے بتایاکہ اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہا ہے۔ (سنن النسائی، جلد 08، صفحہ 249، حدیث: 5426، المکتبۃ التجاریۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4148
تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر 1447ھ / 23 اگست 2025ء