
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا موئے مبارک کی سند (یعنی کس کے ذریعے سے یہ آپ کے پاس پہنچے) ہونا ضروری ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
موئے مبارک کی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی طرف نسبت مشہور ہونا کافی ہے، اس کے لئےکسی سند یایقینی ثبوت کا ہونا ضروری نہیں، ایسی جگہ بے تحقیق و تنقیح تعظیم و تبرک سے باز رہنا سخت محرومی ہے۔
امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”ایسی جگہ ثبوتِ یقینی یاسندِ محدثانہ کی اصلاً حاجت نہیں اس کی تحقیق و تنقیح کے پیچھے پڑنا اور بغیر اس کے تعظیم و تبرک سے باز رہنا سخت محرومی کم نصیبی ہے ائمہ دین نے صرف حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔امام قاضی عیاض شفا شریف میں فرماتے ہیں:
من اعظامہ و اکبارہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و سلم اعظام جمیع اسبابہ و اکرام مشاھدہ و امکنتہ من مکۃ و المدینۃ و معاھدہ و ما لمسہ علیہ الصلوٰۃ و السلام او اعرف بہ“
یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے تمام متعلقات کی تعظیم اور آپ کے نشانات اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے مقامات اور آپ کے محسوسات اور آپ کی طرف منسوب ہونے کی شہرت والی اشیاء کا احترام یہ سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم و تکریم ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 414، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاویٰ رضویہ شریف ہی میں ایک اور مقام پر ہے: ”نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آثار و تبرکات شریفہ کی تعظیم دین مسلمان کا فرض عظیم ہے تابوتِ سکینہ جس کا ذکر قرآن عظیم میں ہے جس کی برکت سے بنی اسرائیل ہمیشہ کافروں پر فتح پاتے اس میں کیا تھا
"بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ"
موسیٰ اور ہارون علیہما الصلوٰۃ و السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات سے کچھ بقیہ تھا۔ موسی علیہ السلام کا عصا اور ان کی نعلین مبارک اور ہارون علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عمامہ وغیرہا، و لہٰذا تواترسے ثابت کہ جس چیز کوکسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی علاقہ بدن اقدس سے چھونے کا ہوتا صحابہ وتابعین وائمہ دین ہمیشہ اس کی تعظیم وحرمت اور اس سے طلب برکت فرماتے آئے اور دین حق کے معظم اماموں نے تصریح فرمائی ہے کہ اس کے لئے کسی سند کی بھی حاجت نہیں بلکہ وہ چیز حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے نام پاک سے مشہور ہو اس کی تعظیم شعائر دین سے ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 414 - 415، رضا فاؤنڈیش لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2114
تاریخ اجراء: 10 رجب المرجب 1446 ھ / 11 جنوری 2025 ء