Kya Aurat Chhote Bache Ki Mayyat Ghusl De Sakti Hai?

کیا عورت چھوٹے بچے کی میت کو غسل دے سکتی ہے؟

مجیب:مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9195

تاریخ اجراء:27جمادی الاولی1446ھ/30 نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ سات، آٹھ ماہ کے بچے کاانتقال ہو جائے، تو کیا عورت اُسے غسل دے سکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نابالغ میت کو غسل دینے کے حوالے سے حکمِ شرعی یہ ہے کہ  نابالغ بچہ اگر حدِ شہوت  تک نہ پہنچا ہو، تو عورت اُسے غسل دے سکتی ہے، لیکن اگر نابالغ بچہ قابلِ شہوت  ہو، تو عورت اُس   نابالغ بچے کو غسل نہیں دے سکتی، بلکہ کوئی مرد غسل دے گا، چونکہ سات، آٹھ ماہ کا بچہ قابلِ شہوت نہیں ہوتا  ، تو عورت  اگر غسل دینا چاہے، تو دے سکتی ہے۔

   فتاوی قاضی خان و رد المحتا ر میں ہے،واللفظ للاول: ’’الصغير والصغيرة اذا لم يبلغا حد الشهوة يغسلهما الرجال والنساء، لانہ لیس لأعضائھما حکم العورۃ“ترجمہ:چھوٹا بچہ اور بچی  جب حدِ شہوت تک نہ پہنچے ہوں، تو مرد وعورت انہیں غسل دے سکتے ہیں، کیونکہ  ان دونوں کے اعضائے ستر  کو چھپانے کا حکم نہیں ہے۔(فتاوی قاضی خان، جلد1، صفحہ165، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   فتاوی ہندیہ میں ہے: ان كان الميت صغيرا لا يشتهى جاز ان يغسله النساء“ ترجمہ: اگر میت اتنے چھوٹے بچے کی ہو جو مشتہاۃ (قابلِ شہوت)  نہ ہو، تو عورتوں کا اسے غسل دینا جائز ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد1،  صفحہ 160،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”میت چھوٹا لڑکا ہے، تو اسے عورت بھی نہلا سکتی ہے اور چھوٹی لڑکی کو مرد بھی، چھوٹے سے یہ مراد کہ حدِ شہوت کو نہ پہنچے ہوں۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ04، صفحہ812، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم