فاسق شخص جنازہ پڑھادے، تو کیا حکم ہے؟

 

فاسق شخص  جنازہ پڑھادے، تو کیا حکم ہے؟

مجیب: مفتی  ابومحمد  علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13727

تاریخ اجراء: 28شعبان المعظم1446 ھ/27فروری 2025   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ خشخشی داڑھی والا اگر نمازِ جنازہ پڑھادے ،تو کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خشخشی داڑھی والا فاسقِ معلن ہے اور فاسقِ معلن کو امام بنانا ناجائز و گناہ ہے، اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز مکروہِ تحریمی و واجب الاعادہ ہوتی ہے ۔ البتہ اس کے باوجود خشخشی داڑھی والا اگر درست طور پر نمازِ جنازہ پڑھادے ،تو فرض ساقط ہوجائے گا اور حقِ میت بھی ادا ہوجائے گا،مگر نمازِ جنازہ چونکہ فرضِ کفایہ ہے، لہذا اس صورت میں نمازِ جنازہ کا اعادہ نہیں کیا جائے گا کہ دوبارہ ادا کی جانے والی نماز نفل ہوگی اور نمازِ جنازہ کو بطورِ نفل پڑھنا   بالاجماع مشروع نہیں۔

   فاسقِ معلن کو امام بنانا گناہ ہے۔جیسا کہ غنیۃ المستملی میں ہے:

لوقدموافاسقایاثمون، بناءعلی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم

   یعنی اگر لوگوں نے فاسق کو امام بنایا، تو وہ گنہگار ہوں گے ،کیونکہ اس کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔(غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی، ج01،ص442، مطبوعہ کوئٹہ)

   داڑھی منڈا نے یا ایک مٹھی سے گھٹانے والا  شخص  فاسقِ معلن ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”داڑھی منڈانا اور کُتَروا کر حدِ شرع سے کم کرانا ، دونوں حرام وفسق ہیں اور اس کا فسق باِلاِعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے اور فاسقِ مُعلِن کی امامت ممنوع و گناہ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 505، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   فاسقِ معلن اگر نمازِ جنازہ پڑھادے، تو فرض ساقط ہوجائے گا۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:        (صورتِ مسئولہ میں)اس (فاسق) کے پیچھے نمازمکروہ ہے کہ پڑھی جائے ،تو شرعاً اس کا اعادہ مطلوب ۔۔۔۔ نمازِ جنازہ میں اسے امام کرنا اور بھی زیادہ معیوب کہ یہ نماز بغرض دُعا و شفاعت ہے اور فاسق کو شفاعت کے لیے مقدم کرنا حماقت ،تاہم اگر پڑھائے گا ،تو جوازِ نماز و سقوطِ فرض میں کلام نہیں۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 390،389، رضا فاؤنڈیشن، لاھور، ملتقطاً)

   فرض ساقط ہونے کے بعد دوبارہ ادا کی گئی نماز نفل ہے اور نمازِ جنازہ کو بطورِ نفل پڑھنا بالاجماع مشروع نہیں۔ جیسا کہ  سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:ائمہ کرام اس کی تکرار کونامشروع فرماتے ہیں کہ شرع مطہر میں یہ نماز بروجہ تنفل نہیں اور اس کی فرضیت بالاجماع بسبیل الکفایہ ہے، اورفرض کفایہ جب بعض نے ادا کرلیا ادا ہوگیا، اب جو پڑھے گا نفل ہی ہوگا۔اوراس میں تنفل مشروع نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج09، ص281، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم