
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
میت پر غسل کیوں لازم ہوتا ہے؟ میت کو غسل دینا تو فرض کفایہ ہے، مگر میت پر غسل واجب ہونے کی کیا وجہ ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
میت کا غسل لازم ہونے میں اصل تو یہ ہے کہ سب انسانوں کے والد، حضرت سیدنا آدم علی نبینا و علیہ الصلاۃ و السلام کی وفات پر فرشتوں نے آپ کو غسل دیا تھا اور آپ کے بیٹے سے کہا تھا کہ یہ تمہارے مُردوں کا طریقہ ہے یعنی انسان کے فوت ہونے کے بعد اسے یوں غسل دینا ہے اور اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ موت سے جسم پرحدث طاری ہوتاہے، جسےدورکرنے کے لیے غسل لازم فرمایا گیا ہے۔
غسل ِ میت کی حکمت بیان کرتے ہوئےدرمختارمیں ہے
”الأصل فيه تغسيل الملائكة لآدم عليه السلام و قالوا لولده هذه سنة موتاكم“
ترجمہ: غسل میت کی اصل فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو غسل دینا ہے اور فرشتوں نے اُن کے بیٹے سے کہا: یہ تمہارے مردوں کا طریقہ ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 200، دار الفکر، بیروت)
حلبۃ المجلی میں شمس الدین محمدبن محمد المعروف ابن امیرحاج (متوفی 879 ھ)فرماتے ہیں:
"و اختلف في سبب وجوبه، فمحمد بن شجاع ومَنْ وافقه: الحدث لأن الموت سبب لاسترخاء المفاصل، و زوال العقل، و عامة المشايخ نجاسة الموت؛ لأن الآدمي حيوان دموي فيتنجس بالموت كسائر الحيوانات و نص في البدائع على أنه الأظهر۔ قلت: قد اخرج الحاکم عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم لاتنجسوا موتاکم فان المؤمن فلاینجس حیا و لامیتا قال صحیح علی شرط البخاری و مسلم و قال الحافظ ضیاء الدین فی احکامہ: "اسنادہ عندی علی شرط الصحیح " فیترجح الاول"
ترجمہ: غسل میت کے واجب ہونے کے سبب کے متعلق اختلاف ہے، پس محمد بن شجاع اور ان کے موافقین کہتے ہیں:سببِ وجوب حدث ہے، کیونکہ موت، اعضاء کے ڈھیلے پڑنے اور زوالِ عقل کا سبب ہے۔ اور عامہ مشایخ فرماتے ہیں: سببِ وجوب موت کی نجاست ہے، کیونکہ آدمی ایسا حیوان ہے جس میں خون ہوتا ہے تو یہ موت کی وجہ سے نجس ہو جاتا ہے جیسے سارے حیوان ہوتے ہیں، اور بدائع میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ یہی زیادہ ظاہر ہے۔ میں کہتاہوں: حاکم نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: ''اپنے مردوں کونجس نہ قرار دو اس لئے کہ مومن حیات وموت کسی حالت میں نجس نہیں ہوتا''۔ اور کہا کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور حافظ ضیاء الدین نے اپنے احکام میں فرمایا: "اس کی سند میرے نزدیک صحیح کی شرط پر ہے۔" تو اول کو ترجیح حاصل ہوگی۔ (حلبۃ المجلی، فصل فی صلاۃ الجنازۃ ۔۔الخ، ج 2، ص 598، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ (متوفی 1340ھ)فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:
”فثبت و للّہ الحمد ان الحدیث ینفی تنجس المسلم بالموت فوجب کما قال المحققان ترجیح ان غسلہ للحدث و قد قال فی البحر انہ الاصح“
ترجمہ: تو بحمداللہ یہ ثابت ہوگیا کہ حدیث پاک سے موت کی وجہ سے مسلمان کے نجس ہونے کی نفی ہوتی ہے تو دونوں محققوں کے فرمان کے بموجب اس کی ترجیح ضروری ہے کہ غسلِ میت حدث کی وجہ سے ہے۔ اور بحر میں فرمایا ہے کہ ''یہی اصح ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 3، ص 407، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3834
تاریخ اجراء: 18 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 16 مئی 2025 ء