خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ خودکشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

خودکشی بےشک حرام اور گناہِ کبیرہ ہے اور احادیث کریمہ میں اس کے متعلق سخت وعیدیں وارد ہیں، لیکن خودکشی کرنے سے مسلمان، کافرنہیں ہوجاتا، مسلمان ہی رہتا ہے اور نمازِ جنازہ ہر مسلمان کی پڑھنے کا حکم ہے، اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو۔ صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، لیکن ان میں خودکشی کرنے والا شامل نہیں ہے، لہذا اس کی نمازِجنازہ پڑھنا بھی نہ صرف جائز، بلکہ فرضِ کفایہ ہے، تاہم کسی بڑے پیشوا اور بڑے عالم و مفتی کو زجراً (دوسروں کی عبرت لیے)، اس کی نمازِجنازہ نہیں پڑھنی چاہیے، تاکہ لوگوں کو تنبیہ ہو اور آئندہ کوئی خودکشی پر اقدام نہ کرے۔ عام ائمہ حضرات اور عوام جنازہ پڑھ لیں تاکہ فرض کفایہ ادا ہوجائے۔

مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے:

”و قاتل نفسه يغسل و يصلى عليه عند أبي حنيفة و محمد و هو الأصح عندي لأنه مؤمن مذنب“

یعنی طرفین کے نزدیک خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا اور اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی اورمیرے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ وہ بہرحال مسلمان ہے، اگرچہ گنہگارسہی۔

اسی کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

”فصارکغیرہ من أصحاب الکبائر“

تو یہ شخص دیگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والوں کی طرح ہوگیا (اس لیےعام مرتکبِ کبیرہ کی طرح اس کی بھی نمازِجنازہ پڑھی جائے گی)۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 602، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ”جس نے خودکشی کی حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، مگر اُس کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی، اگرچہ قصداً خودکشی کی ہو۔“ (بھارِشریعت، جلد 01، صفحہ 827، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے: ”اگر علما وفضلا، باقتدائے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم فی المدیون و فی قاتل نفسہ (یعنی جیسے مقروض اور خودکشی کرنے والےکی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے زجراً نمازِجنازہ نہیں پڑھی ایسے ہی) بغرض زجر و تنبیہ نماز جنازہ بے نماز سے خود جُدا رہیں، کوئی حرج نہیں، ہاں یہ نہیں ہوسکتا کہ اصلاً کوئی نہ پڑھے یوں سب آثم و گنہگار رہیں گے۔ مسلمان اگرچہ فاسق ہو اُس کے جنازہ کی نماز فرض ہے

الامن استثنی و لیس ھذا منھم

(مگر جو مستثنی ہیں اور یہ ان میں سے نہیں ہے)“ (فتاوی رضویہ، جلد 05، صفحہ 108، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

فتویٰ نمبر: FMD-1565

تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1441ھ / 25 ستمبر 2019ء