کیا مرد کسی عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے؟

 

کیا نامحرم عورت کے جنازے کو کندھا دینا جائز ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13067

تاریخ اجراء:10ربیع الثانی1445 ھ/26اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ کیا مرد نامحرم عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! مرد نا محرم عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے ، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کہ  جنازہ خواہ مرد کا ہو یا عورت کا ، بہر صورت جنازے کو کندھا دینا باعثِ اجرو ثواب  ہے، اس کے بہت فضائل احادیثِ مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں۔

   البتہ اتنا ضرور ہے کہ مرد کے لیے  کسی نامحرم عورت کی میت کو دیکھنے اور اسے چھونے کی ممانعت ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق مرد کا اجنبیہ عورت کو بلا اجازتِ شرعی چھونا ، جائز نہیں، بلکہ فی زمانہ فتنہ کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کو دیکھنے کی بھی ممانعت کی جائے گی۔ البتہ شوہر اپنی بیوی کی میت کو دیکھ سکتا ہے، مگر بلا حائل بیوی کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کے لیےبھی  ناجائز ہے۔

   جنازے کو کندھا دینے کی فضیلت سے متعلق ترمذی شریف کی حدیثِ مبارک حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من تبع جنازة و حملها ثلاث مرات فقد قضى ما عليه من حقهایعنی جو شخص جنازہ کے ساتھ چلا اور اسے تین مرتبہ اٹھایا،  اس نے جنازہ کا وہ حق ادا کر دیا جو اس کے ذمہ تھا۔(جامع ترمذی، كتاب الجنائز،ج 03، ص 350، حدیث نمبر 1041، مصر)

   سننِ ابنِ ماجہ کی حدیثِ مبارک میں ہے: ”قال عبد الله بن مسعود:"من اتبع جنازة فليحمل بجوانب السرير كلها؛ فإنه من السنة، ثم إن شاء فليتطوع، وإن شاء فليدع"  یعنی حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے، اُسے چاہیے کہ وہ چارپائی کے سارے پائے (چاروں پائے) پکڑے کہ یہ سنت ہے پھر اس کے بعد چاہے تو جنازے کو (مزید)کندھا دے  اور چاہے چھوڑ دے۔ (سننِ ابنِ ماجہ، كتاب الجنائز،ج 01، ص 474، حدیث نمبر 1478،  دار إحياء الكتب العربية)

   جنازے کو کندھا دینے سے متعلق مراقی الفلاح شرح نور الایضاح وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”(يسن لحملها) حمل (أربعة رجال) تكريماً له وتخفيفاً وتحاشياً عن تشبيهه بحمل الأمتعة “یعنی جنازے کو اٹھانے میں سنت یہ ہے کہ چار مرد جنازے کی ڈولی کو اٹھائیں،  کہ اس میں  میت کی تکریم ، اٹھانے والوں پر آسانی اور سامان اٹھانے  کی مشابہت سے  بچنا ہے ۔ (مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح، باب احکام الجنائز، ص 223، المكتبة العصرية)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:” شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا،  جائز ہے، اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 138، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جنازہ کو کندھا دینا عبادت ہے، ہر شخص کو چاہيے کہ عبادت میں کوتاہی نہ کرے اور حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ اٹھایا۔ سنّت یہ ہے کہ چار شخص جنازہ اٹھائیں، ايک ايک پایہ ایک شخص لے۔ ۔۔۔۔سنت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے اور پوری سنت یہ کہ پہلے دہنے سرہانے کندھا دے پھر دہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے کہ حدیث میں ہے، "جو چالیس قدم جنازہ لے چلے اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا ديے جائیں گے۔"نیز حدیث میں ہے، "جو جنازہ کے چاروں پایوں کو کندھا دے، اللہ تعالیٰ اس کی حتمی مغفرت فرما دے گا۔"“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 823-822، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   صدر الشریعہ علیہ الرحمہ ایک دوسرے موقع پر نقل فرماتے ہیں:” عورت مرجائے تو شوہر نہ اسے نہلا سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے اور دیکھنے کی ممانعت نہیں۔ عوام میں یہ جو مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازے کو نہ کندھا دے سکتا ہے ، نہ قبر میں اتار سکتا ہے،  نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے۔  صرف نہلانے اور اس کے بدن کو بلا حائل چھونے کی ممانعت ہے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 813، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”یہ جو عام لوگوں میں مشہور ہے کہ جنازے کو شوہر کندھا نہیں دے سکتا، محض غلط ہے۔ کہ یہ تو مطلقاً ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ شرع نے اس پر کسی قسم کی تخصیص نہ کی۔ پھر غیروں کا تو اجازت ہو اور شوہر کو روکا جائے۔ عجب ہے کہ اگر تعلق منقطع ہونا سبب ہو تو اوروں سے بھی تعلق نہیں۔ آخر وجہ فرق کیا ہے۔ کہ اوروں کو اجازت اور شوہر کو ممانعت۔ (فتاوٰی امجدیہ، ج01، ص310، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   نامحرمہ کو چھونے سے متعلق بہارِ شریعت میں ہے:” اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا اگرچہ جائز ہے مگر چھونا جائز نہیں، اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ نظر کے جواز کی وجہ ضرورت اور بلوائے عام ہے چھونے کی ضرورت نہیں، لہٰذا چھونا حرام ہے۔ “

   فی زمانہ نامحرمہ کے چہرے کو دیکھنے کی ممانعت کی جائے گی۔ جیسا کہ بہارِ شریعت کے اسی صفحے پر چند سطر بعد مذکور ہے :”اجنبیہ عورت کے چہرہ کی طرف اگرچہ نظر جائز ہے ،جبکہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو مگر یہ زمانہ فتنہ کا ہے اس زمانے میں ویسے لوگ کہاں جیسے اگلے زمانہ میں تھے، لہٰذا س زمانہ میں اس کو دیکھنے کی ممانعت کی جائے گی مگر گواہ و قاضی کے لیے کہ بوجہ ضرورت ان کے لیے نظر کرنا جائز ہے ۔ “ (بہارِ شریعت، ج 03، ص 446، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مفتی جلال الدین امجدی  علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”شریعت کا حکم ایسا نہیں ہے،  سارے مسلمان کسی کی بیوی کے جنازے کو کندھا لگائیں مگر اس کا شوہر کندھا نہ لگائے،  یہ حکم کیسے ہوسکتا ہے؟             (فتاوٰی  فقیہ ملت، ج 01، ص 255، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم