Marhoom Ka Qarz Utarne Ke Mutalliq Tafseeli Fatwa

مرحوم کا قرض اتار نے سے متعلق تفصیلی فتویٰ

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9141

تاریخ اجراء:14 ربیع الاخر  1446ھ/18 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے  کےبارے میں کہ والد کے انتقال کے بعد قرض کی  ادائیگی کیسے کریں، جبکہ یہ معلوم ہو کہ والد نے قرض لیا ہے اور رقم بھی معلوم ہے،مگر  قرض خواہوں کا علم نہ ہو؟ نامعلوم شخص کے قرض کا حکم یہ ہوتا ہے کہ بعد تتبع و تلاش بنیتِ ثواب صدقہ کردیا جائے،مگر میت کا ترکہ تو ورثاکا حق ہے، اِس میں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے یا نہیں؟نیز قبل از ادائے قرض وراثت کیسے تقسیم کریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)اولاً یہ سمجھ لیجیےکہ میت کا کُل ترکہ ورثا کا حق نہیں ہوتا،بلکہ میت کے مال کے ساتھ چار حقوق  متعلق ہوتے ہیں اور ان سب میں ترتیب بھی ضروری ہے: سب سے پہلے میت کے کفن دفن کا انتظام و انصرام کیاجائے گا، پھر قرضے کی ادائیگی، پھربقیہ ترکے میں سے تہائی 1/3مال سے وصیت پوری کی جائےگی، اس کے بعد بچنے والامال ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیاجائے گا، اگر قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد کچھ بھی نہ  بچے، توترکہ میں  ورثا کا حق ثابت ہی نہیں ہو گا۔

   (2)جہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ قرض خواہوں کا علم نہیں، تو کیاکریں، تو اولاً کوشش کر کے قرض خواہوں کی معلومات لی جائے، انہیں تلاش کیا جائے، فی زمانہ کسی شخص کو تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں، بہت سے ذرائع اپنائے جا سکتے ہیں،مثلاً:بعض اوقات انسان نے اپنے پاس حساب کتاب لکھ کررکھا ہوتا ہے،تو اس سے معلوم کرنا آسان ہوجاتا ہےکہ کس کا کتنا قرض ادا کرنا ہے، اِسی طرح مرحوم کا عموماًلین دین کن لوگوں سے ہوتاتھا،اُن کی معلومات لی جاسکتی ہے،لہٰذا اولاًحتی الامکان اصل مالک کو تلاش کیاجائے،وہ مل جائے، تو اسے ادا کیا جائے اور اگر اس کا انتقال ہو چکا ہے، تواس کے ورثاکو تلاش کرکےان تک پہنچایاجائے۔

   اور ترکہ کی تقسیم کے متعلق حکم شرعی یہ ہےکہ اگر فی الحال قرض خواہ کی معلومات کی صورت ممکن نہ ہو اور تقسیمِ وراثت ضروری ہو،تو شرعاًاس بات کی اجازت ہےکہ قرض کی رقم الگ کرنے کے بعد بقیہ مال، ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیاجائے،کیونکہ اگر قرض  کی رقم نکالنے کے بعد مال بچتا ہو، تووراثت تقسیم نہ کرنے سے ورثا کو ضرر ہو گا، اِس لیے استحساناً ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور صورتِ مسئولہ میں بھی قرض کی مقدار معلوم ہے، لہٰذا  قرض کی رقم نکال کر بقیہ  ترکہ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

   پھر بعد میں اگر واقعی اچھے انداز سے تتبع اور تلاش کے باوجود قرض خواہوں کی معلومات نہیں ملتی اور آئندہ بھی ملنے کی امید نہ ہو،تو ورثا پر لازم ہے کہ وہ رقم کسی شرعی فقیریعنی  مستحقِ زکوۃ مسلمان پر قرض خواہوں کی طرف سے صدقہ کر دیں، اس طرح کرنے سے مقروض اس سے برئ  الذمہ ہو جائے گااور آخرت میں مؤاخذہ  نہیں ہوگا۔

   تنبیہ!یاد رہے! صدقہ کرنے کے بعد اگر قرض خواہ مل جاتے ہیں اور اِس صدقہ پر راضی نہیں ہوتے، تو انہیں اُن کی رقم دینی لازم ہوگی ۔

   (1) مالِ میت کے ساتھ بالترتیب چار حقوق متعلق ہوتے ہیں،جیساکہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات:600ھ)لکھتےہیں: قال علماءنا رحمھم اللہ تعالیٰ تتعلق المیت حقوق  اربعۃ مرتبۃ،الاول:یبداء بتکفینہ  وتجھیزہ من غیر تبذیر ولاتقصیر  ثم تقضی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذ وصایاہ من ثلث مابقی بعد  الدین ،ثم یقسم  الباقی بین ورثتہ بالکتاب وا لسنۃ واجماع الامّۃ ترجمہ:ہمارے علمائے عظام رحمھم اللہ السلام فرماتے ہیں : میت کے ساتھ چار حقوق ترتیب وار متعلق ہوتے ہیں ،پہلا یہ کہ ابتداءً میت  کی تجہیز و تکفین بغیر کسی فضول خرچی اور کمی کے کی جائے گی، پھر بقیہ مال سے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے، پھر قرض سے  جو رقم بچے گی اس کی ایک تہائی 3/1 میں وصیت نافذ ہو گی، پھر باقی مال، ورثا کے درمیان کتاب و سنت اور اجماع ِ امت  سے ثابت شدہ طریقہ کے مطابق  تقسیم کیا جائے گا۔(السراجی فی المیراث،صفحہ11،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   مرحوم کاقرض ادا کرنےکی کس قدر اہمیت ہے، اِس کا اندازہ اِس حدیث پاک سے لگائیے، چنانچہ صحيح بخارى شریف میں ہے: عن ‌أبي هريرة رضي اللہ عنه: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان يؤتى بالرجل المتوفى عليه الدين،فيسأل:هل ترك لدينه فضلا، فإن حدث أنه ترك لدينه وفاء، صلى، وإلا قال للمسلمين: صلوا على صاحبكم، فلما فتح اللہ عليه الفتوح، قال: أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم، فمن توفي من المؤمنين فترك دينا، فعلي قضاؤه،ومن ترك مالا فلورثتهترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ایسی میت کو لایا جاتا جس پر قرض ہوتا،تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پوچھتے کیااس نے اپنے قرض کے لیے کوئی زائد مال چھوڑا ہے؟ اگر بیان کیاجاتا کہ مکمل قرض کی ادائیگی کے لیے مال چھوڑا ہے، توآپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز جنازہ ادا فرماتے، ورنہ مسلمانوں سے فرماتے کہ اپنےساتھی پر نماز جنازہ پڑھ لو، پھر جب اللہ تعالیٰ نےآپ ﷺپر کشائش فرمائی ،تو ارشاد فرمایاکہ میں مومنوں کی جانوں کا ان سے زیادہ حق دار ہوں،لہٰذا جو بندۂ مومن اپنے ذمہ قرض چھوڑکر فوت ہوتو اس کو ادا کرنا مجھ پر لازم ہے اور جس نے مال چھوڑا ہو،تو وہ اُس کے ورثا کے لیے ہے۔(صحیح البخاری ،كتاب الكفالة، جلد1، صفحہ404، مطبوعہ لاھور)

   قرض کی ادائیگی تقسیمِ ترکہ سے پہلے ضروری ہے،جیساکہ جامع ترمذی،مسند احمد،مشکوۃ المصابیح اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے:عن علي أنه قال:إنكم تقرءون هذه الآية:(من بعد وصية توصون بها أو دين)(النساء: 12) وان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ‌قضى ‌بالدين قبل الوصية ترجمہ: حضرت علی کَرَّمَ  اللہُ  وَجْھَہٗ الْکَرِیْم نے ارشادفرمایا:تم یہ آیت پڑھتے ہوکہ جو وصیت تم کر جاؤ اس کے بعد یا قرض نکال کرحالانکہ رسول اﷲ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرض کا وصیت سے پہلے حکم دیا ہے۔(سنن الترمذی، جلد3، صفحہ600، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی،بیروت)

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/ 1971ء)لکھتےہیں:خلاصہ یہ ہے کہ آیت کریمہ میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے فرمایا گیا کہ ارشادِ باری میں پہلے وصیت ہے پھر قرض،مگر حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے ادائے قرض کو وصیت پر مقدم فرمایا کہ تجہیز و تکفین کے بعد میت کا قرض ادا کرو پھر بعد ادائے قرض،تہائی مال سے وصیت جاری کرو،پھر میراث تقسیم کرو، حضورِ انور کا یہ عمل قرآن کریم کے مخالف نہیں، بلکہ اس کی تفسیر ہے جس سے بتادیا گیا کہ قرض ذکر میں پیچھے ہے ،مگر عمل میں پہلےچونکہ  وارثوں پر وصیت پوری کرنا شاق گزرتا ہے، قرض شوق سے ادا کردیتے ہیں اس لیے اہتماماً پہلے وصیت کا ذکر فرمایا۔(مراٰۃ المناجیح، جلد4، صفحہ373، مطبوعہ ضیاء القرآن، پبلی کیشنز، لاھور)

   امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”ادائے دُیُون تقسیم ترکہ پر مقدم ہے، پس جب تک مہر اور دیگر دیون بھی اگر ہوں، ادا نہ ہو لیں،تقسیم نہ کرنا چاہیے۔(فتاوی رضویہ، جلد26، صفحہ 119، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   یہی وجہ ہے کہ اگر ترکہ صرف اتنا ہو کہ قرض ہی ادا ہوسکتا ہے،تووارث کی ملکیت میں کچھ نہیں آئے گا، چنانچہ امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِاشباہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: فان الدین المحیط یمنع ملک الوارث، کما فی الاشباہ وغیرھا(یعنی )جو دَین تمام مال کو محیط ہو،وہ وارث کی ملکیت سے مانع ہوتاہے،جیسا کہ اشباہ وغیرہ میں ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ 562، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   (2)فوت ہونے والا مقروض  ہو اور قرض خواہ معلوم ہو،تو ورثا پر قرض کی ادائیگی ہی لازم ہے،جیساکہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے: وأما إذا كان صاحبها متوفى فللمستودع أن يعطي تلك الوديعة إلى دائن المتوفى إن كان الدائن المذكور معروفا،لأن المستودع أتى بفعل كان على وصي المتوفى أن يفعله،لأنه قضى من له الحق وهو غريم الميت وليس للابن ميراث حتى يقضي الدين، ملخصاً“ ترجمہ: بہر حال اگر   امانت رکھوانے والا فوت ہوجائے اور اس کا قرض خواہ معلوم ہو، تو مستودع کے لیے  اس کے قرض خواہ کو دینا جائز ہے، کیونکہ اس نے وہ کام کیا ہےجو  میت کے وصی پر کرنا لازم تھا،اس لیے کہ اس نےصاحب ِحق یعنی میت کے قرض خواہ کو اس کا حق ادا کیاہے اور بیٹے کے لیے تب تک میراث لینا جائز نہیں جب تک (مرحوم والد کاترکہ سے)قرض ادا نہ کردے۔(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، جلد2، صفحہ309، مطبوعہ دار الجیل)

   اگر فی الحال قرض خواہ معلوم نہ ہوں  اور قرض پورے ترکہ کو محیط نہ ہو،تو قرض کی رقم الگ کر کے بقیہ ترکہ تقسیم کر سکتے ہیں،جیساکہ تنوير الابصار و درمختار میں ہے: (ولا) ينبغي أن (يصالح) ولا يقسم (قبل القضاء) بالدين (في غير دين محيط ولو فعل) ‌الصلح والقسمة (صح) لأن التركة لا تخلو عن قليل دين فلو وقف الكل تضرر الورثة فيوقف قدر الدين استحسانا وقاية لئلا يحتاجوا إلى نقض القسمة، بحر ترجمہ: اگر دَین تمام ترکہ کو محیط نہ ہو، تب بھی ادائے قرض سے پہلے  صلح اور وراثت تقسیم نہیں کرنی  چاہیے، لیکن اگر کر لی، تو درست ہو جائے گی، کیونکہ عموماً ترکہ میں کچھ نہ کچھ قرض ہوتا ہی ہے،اگر  پورے ترکہ کو روک لیا جائے،تو ورثا کو ضرر ہو گا، لہٰذا استحساناً بقدر قرض الگ رکھاجاسکتا ہے، وقایہ، تاکہ  دوبارہ تقسیم ِ وراثت کو ختم کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔(تنور الابصار والدرالمختار، فصل فی التخارج، جلد8، صفحہ493، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی بات کوبہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ /1947ء) نے یوں بیان کیا: میّت پر کچھ دَین ہے مگراتنا نہیں کہ پورے ترکہ کو مستغرق ہو، تو جب تک دَین ادا نہ کر لیا جائے،تقسیمِ ترکہ و مصالحت کو موقوف رکھنا چاہیے،کیونکہ ادائے دَین میراث پر مقدم ہے،پھر بھی اگر ادا کرنے سے پہلے تقسیم و مصالحت کرلیں اور دَین ادا کرنے کے ليے کچھ ترکہ جدا کر دیں،تو یہ تقسیم و مصالحت صحیح ہے،مگر فرض کرو کہ وہ مال جو دَین ادا کرنے کے ليے رکھاتھا،اگرضائع ہوجائے گاتو تقسیم توڑدی جائے گی اورورثہ سے ترکہ واپس لے کر دَین اداکیاجائے گا۔(بھارِ شریعت،جلد2،حصہ 13، صفحہ1152،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تتبع اور تلاش کے باوجود بھی قرض خواہ نہ ملے اور آئندہ ملنے کی امید بھی نہ ہو،تو اُتنا مال اس کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے، جیسا کہ تنویرالابصارودرمختار میں ہے:(علیہ دیون ومظالم جھل اربابھا وایس)من علیہ ذالک (من معرفتھم فعلیہ التصدق بقدرھا من مالہ وان استغرقت جمیع مالہ) ھذا مذھب اصحابنا لانعلم بینھم خلافا کمن فی یدہ عروض لم یعلم مستحقیھا اعتباراً للدیون بالاعیان (و) متی فعل ذٰلک(سقط عنہ المطالبۃ)من اصحاب الدیون(فی العقبی)ترجمہ:کسی شخص پرقرض اور مظالم(ظلم سے جمع شدہ مال) ہیں،جن کے مالکوں کاپتہ نہیں اور وہ مقروض ان مالکوں کی معرفت سے نا امید ہوچکا ہے، تو اس پر اس قرضہ کے برابر اپنے مال سے صدقہ کرنا ضروری ہے،اگرچہ اس کا سارا مال اس میں ختم ہوجائے، ہمارے ائمہ کا یہی مذہب ہے۔ ہمارے علم میں ان کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ جیسے کسی شخص کے پاس ایسا سامان ہو جس کے مستحقین معلوم نہیں، اعیان کےقرضوں پرقیاس کرتے ہوئےاور جب اس نے ایساکردیا یعنی صدقہ کردیا تو آخرت میں قرض خواہوں کی طرف سے اس پر سے مطالبہ ساقط ہوگیا۔(تنویر الابصار و الدر المختار، جلد6، صفحہ434، مطبوعہ کوئٹہ)

   دَینِ اُجرت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”اسٹیشن پر جانے والی گاڑیاں اگر کوئی مانع قوی نہ ہو، تو ہر گاڑی کہ آمد و رفت پر ضرور آتی جاتی ہیں۔ اگر زید اسٹیشن پر تلاش کرتا، ملنا آسان تھا، اب بھی خودیا بذریعہ کسی متدین معتمد کے تلاش کرائے، اگر ملے، دے دئیے جائیں، ورنہ جب یاس و نا امیدی ہوجائے، اس کی طرف سے تصدق کر دے، اگر پھر کبھی وہ ملے اور اس تصدق پر راضی نہ ہو، اسے اپنے پاس سے دے۔کما ھو شان اللقطۃ و سائر الضوائع۔ (جیسا کہ لقطہ اور دیگر گری پڑی اشیاء کا حال ہوتا ہے۔)(فتاوی رضویہ، جلد25، صفحہ55، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   یہی حکم مقروض کے فوت ہونے کے بعد ورثا کے لیے بھی ہے،چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں :وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، و إن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة ترجمہ: اور اگر وارث کو اپنے  مورث کے قرض کا علم ہو، خواہ دین  غصب کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں، وارث پر لازم ہے کہ اس کو ترکہ سے ادا کرے اور اگر وہ ادا نہیں کرے گا، تو آخرت میں اِس کی پکڑ ہو گی اور اگر مقروض  یا اس کے وارث کو  قرض خواہ یا قرض خواہ کے وارث کو علم نہ ہو، تو مقروض یا اس کا وارث، قرض خواہ کی طرف سے صدقہ کر دے، مورث آخرت میں اس سے بری ہو جائے گا۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب اللقطۃ، جلد6، صفحہ434، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم