مسجد سے جنازہ گزارنا اور چہرہ دکھانا کیسا؟

مسجد سے جنازہ گزارنا کیسا؟ نیز جنازہ مسجد میں رکھ کر میت کا چہرہ دیکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے علاقے میں ایک مسجد عرصہ دراز سے قائم ہے، اس میں محراب کے باہر مسجد ہی کی ایک گیلری ہے، جو فنائے مسجد ہے، اس جگہ میں نمازِ جنازہ بھی ادا کی جاتی ہے، چونکہ مسجد کے محراب و قبلہ والی جانب سے یہاں آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے بلکہ صرف مسجد کے پیچھے سے اور دائیں بائیں سے راستہ ہے، اس لئے جب جنازہ یہاں رکھنا ہوتا ہے تو عین مسجد سے جنازہ کو لے جایا جاتا ہے اور وہاں رکھ دیا جاتا ہے، پھر نمازِ جنازہ کا انداز کچھ یوں ہوتا ہے کہ امام صاحب اور ان کے ساتھ کچھ نمازی تو گیلری میں ہی ہوتے ہیں اور باقی سارے نمازی عین مسجد میں موجود ہوتے ہیں، اس طرح نمازِ جنازہ ادا کیا جاتا ہے، اس کے بعد چونکہ آگے سے باہر جانے کا راستہ نہیں تو آسانی کیلئے نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد میت کا آخری بار چہرہ دکھانے کیلئے اس کو مسجد میں لایا جاتا ہے اور لوگ باری باری دیکھ کر باہر چلے جاتے ہیں، اس کے بعد اہل خانہ مسجد سے میت کو تدفین کیلئے لے جاتے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح میت کو مسجد سے گزارکر گیلری میں لے جانا اور ذکر کئے گئے انداز سے نمازِ جنازہ ادا کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟ اور صرف چہرہ دکھانے کیلئے میت کو مسجد میں لانے کی اجازت ہے یا نہیں؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرنا مطلقاً مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے، اب چاہے میت مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر، سارے نمازی مسجد میں ہو ں یا کچھ مسجد سے باہر اور کچھ مسجد کے اندر موجود ہوں، تمام صورتوں میں یہی حکم ہے، اسی طرح میت کو عین مسجد سے گزارکر گیلری میں لے جانے اور اور چہرہ دکھانے کیلئے اس کو مسجد میں لانے کی بھی شرعا اجازت نہیں، یہ بھی اسی طرح مکروہ ہے جس طرح مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔

مسجد میں نمازِ جنازہ کا حکم بیان کرتے ہوئے تلمیذِ امام ابن الہمام، امام قاسم بن قطلوبغا علیہ الرحمۃ اپنے رسالہ "احکام الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد "میں لکھتے ہیں:

قال صاحب الهداية في مختارات النوازل: و لا يصلّي صلاة الجنازة في مسجدِ يصلّي فيه الجماعة عندنا، و سواء كان الميت في المسجد أو خارجًا منه في ظاهر الرواية

ترجمہ:صاحب ہدایہ علیہ الرحمۃ نے مختارات النوازل میں فرمایا کہ مسجد جس میں جماعت سے نماز پڑھی جاتی ہے، اس میں ہمارے نزدیک نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی ،چاہے میت مسجد میں ہو یا اس سے باہر ہو، یہی ظاہر الروایہ ہے۔ (مجموعۃ رسائل العلامۃ قاسم بن قطلوبغا، ص 221، دار النوادر، سوريا)

علامہ عبد الغنی نابلسی علیہ الرحمۃ اپنے رسالہ "نزھۃ الواجد فی حکم الصلاۃ علی الجنائز فی المساجد" میں لکھتے ہیں:

و الحاصل ان الذی ینبغی ان یعول علیہ فی ھذہ المسالۃ ان الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد الجامع و مسجد الحی مکروھۃ علی ما ھو المعتمد فی مذھب الحنفیۃ، سواء کانت الجنازۃ فی المسجد او خارج المسجد و القوم فی المسجد او بعضھم کما ھو المختار و ھذا ھو الحق الذی لا ریب فیہ لاحد و ھذہ الکراھۃُ اختلف فیھا و تقدم ترجیح صاحب البحر انھا تحریمیۃ فاعلم ذالک و تحققہ و کن منصفا

ترجمہ: اور حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلے میں جس حکم پر اعتماد کرنا چاہئے ، وہ یہ ہے کہ مسجد جامع ہو یا مسجد محلہ، دونوں ہی میں نماز جنازہ مکروہ ہے، یہی مذہب حنفی میں معتمد ہے، چاہے جنازہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر اور تمام لوگ مسجد میں ہوں یا بعض، جیسا کہ یہی مختار قول ہے اور یہی وہ حق بات ہے جس میں کسی کیلئے شک کی گنجائش نہیں ہے اور اس کراہت میں اختلاف ہے اور صاحب بحر کی ترجیح گزرچکی ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے تو اس کو جان لو اور مضبوطی سے تھام لو اور انصاف والے ہوجاؤ۔ (واحد و اربعون رسالۃ للامام عبد الغنی النابلسی، رسالہ نزھۃ الواجد فی حکم الصلاۃ علی الجنائز فی المساجد، ص 136، مخطوطۃ)

فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”ظاہر الروایہ میں ہمارے ائمہ ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک مسجد میں جنازہ مطلقا مکروہ ہے، اگرچہ میت بیرون مسجد ہو ،یہی ارجح و اصح و مختار و ماخوذ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 260، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اِسی طرح ميت کو مسجد میں لانا بھی مکروہ ہے، اگرچہ اس پر وہاں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، چنانچہ الفقہ علی المذاہب الاربعۃ اور الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے،

و اللفظ للآخر: و كما تكره الصلاة على الجنازة في المسجد، يكره إدخالها فيه

ترجمہ: اور جیسے مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے، ایسے ہی میت کو مسجد میں داخل کرنا بھی مکروہ ہے۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، ج 01، ص 479، دار الكتب العلمية، بيروت، الفقہ الاسلامی و ادلتہ للزحیلی، ج 02، ص 1535، دار الفكر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”سیدنا امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کی روایت نادرہ بعض کتب میں یوں نقل کی گئی کہ خوفِ تلوث نہ ہو، تو مسجد میں جائز، مگر عامہ کتبِ مذہب میں جہاں تک اس وقت نظرِ فقیر نے جولان کیا، یہ روایت نوادر بھی برسبیل اطلاق وتعمیم بے تشقیق وتفصیل ماثور و منقول، جو علماء اس کے ترجیح و تصحیح واختیار کی طرف گئے جنازہ کا مسجد میں لانا مطلقاً مکروہ بتاتے ہیں۔ معللین اُسے احتمال و توہم تلویث سے تعلیل فرماتے ہیں، تقیید و تخصیص حالتِ ظن کا پتا نہیں دیتے، علمائےکرام اختلافِ مشائخ کو اُس حالت سے مقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد کے باہر ہو اور مطلقاً صاف تصریح فرماتے ہیں کہ جنازہ کا مسجد میں ہونا بالاتفاق مکروہ۔

اقول و با للہ التوفیق:

یہاں اطلاق ہی اوفق و احق و الصق بدلیل ہے کہ امعاء غالباً فضلات سے خالی نہیں ہوتیں اور موت مزیل استمساک وموجب استرخائے تام ہے اور جنازہ لے چلنے کی حرکت مؤید خروج، تو ہر میت میں خوفِ تلویث موجود۔ باقی کس خاص وجہ سے غلبہ ظن کی کیا حاجت،ناسمجھ بچّوں کو مسجد میں لانا مطلقاً ممنوع ہُوا کہ سب میں احتمال تلویث قائم، کچھ یہ شرط نہیں کہ جس بچہ کو اسہال وغیرہ کا عارضہ لاحق ہو وہی مسجد میں نہ لایا جائے، یونہی میت بلکہ اس سے بھی زائد۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 259، رضا فاونڈیشن لاہور)

اصل مقصود اگرچہ فنائے مسجد میں جانا ہو لیکن پھر بھی میت کو عین مسجد سے گزارکر نہیں لے جاسکتے، چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ حوض مسجد کے اندر ہے اور اس کے چاروں طرف فرش محیط ہے اور اس کی پٹری پر چارپائی رکھ کر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، یہ درست ہے یا نہیں؟

تو جوابا ارشاد فرمایا: ”قول راجح تر یہ ہے کہ نماز مذکورہ مکروہ ہے اور ایسا کرنا منع ہے اور دوسرے قول پر صورتِ مذکورہ میں یہ حرج تو نہیں اس لئے کہ میت بیرون مسجد ہے، مگر جبکہ فرش مسجد چاروں طرف محیط ہے تو اس پٹری تک جنازے کا لے جانا مسجد کے اندر ہی سے ہوگا اور یہ باتفاق حنفیہ مکروہ ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 266، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0553

تاریخ اجراء: 16 شوال المکرم 1446ھ / 15 اپریل 2025ء