
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا مردوں کے ستر کا حکم بھی زندوں کی طرح ہی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جی ہاں! مردوں کے ستر کا حکم بھی زندوں کی طرح ہی ہے، لہذا جس طرح بلاعذر شرعی زندہ کے ستر کو دیکھنا جائز نہیں، اسی طرح میت کے ستر عورت کو دیکھنا بھی جائزنہیں ہے۔
میت کا ستر دیکھنے کی ممانعت سے متعلق سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ، دار قطنی، مشکوۃ المصابیح و غیرہا کتب حدیث میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے آپ کو ارشاد فرمایا:
لا تبرز فخذك، و لا تنظر إلى فخذ حي، و لا ميت
ترجمہ: اے علی! نہ اپنی ران کھولو، اور نہ کسی زندہ و مردہ کی ران دیکھو۔“ (سنن ابن ماجه، جلد 1، صفحہ 469، حدیث: 1460، دار إحياء الكتب العربي)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یعنی کسی کے سامنے ران نہ کھولو اور نہ بلا ضرورت تنہائی میں کھولو، رب تعالٰی سے شرم کرو، کیونکہ ران ستر ہے۔۔۔ یعنی کسی مُردہ بالغ مسلمان کی ران نہ دیکھو اور کسی ایسے زندہ کی ران نہ دیکھو جن کا تم سے ستر ہے لہذا اس دوسرے حکم سے اپنی بیوی اور اپنی لونڈی خارج ہے۔ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ ران ستر ہے، جس کا چھپانا فرض ہے۔۔۔ دوسرے یہ کہ مردہ کا احترام زندہ کی طرح ہے کہ اس کا ستر دیکھنا حرام ہے لہذا غسال بھی میت کو ستر ڈھک کر غسل دے اسے بھی ستر دیکھنا جائز نہیں۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 18، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
فتاوی قاضی خان میں ہے
النظر إلى عورة الميت حرام
ترجمہ: میت کے سترکی طرف دیکھنا حرام ہے۔ (فتاوى قاضي خان، جلد 1، صفحہ 165، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4051
تاریخ اجراء: 28 محرم الحرام 1447ھ / 24 جولائی 2025ء