مسلم اور غیر مسلم میّت کی پہچان کیسے ہو؟

مسلم و غیر مسلم کی میت پہچان نہ ہو تو نماز جنازہ کس طرح پڑھیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک ادارے میں ملازم ہوں،بعض اوقات میری ڈیوٹی بلوچستان وغیرہ ایسی جگہوں پر ہوتی ہے کہ جہاں مسلمان اور غیرمسلم ایک ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں ، بعض اوقات بم دھماکے ہوتے ہیں،جس میں اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ ایسے لوگوں کا بھی ضرور انتقال ہوا ہوگا جو غیرمسلم ہیں مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی میت مسلمان ہے اور کون سی غیرمسلم،اس لئے ہمیں سب کے ساتھ ہی ایک جیسا برتاؤ کرتے ہوئے نماز جنازہ پڑھنی ہوتی ہے ،ایسی صورت میں ہمارے لئے کیا شرعی رہنمائی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگرختنے وغیرہ کسی علامت کے ذریعے سے مسلمان کی شناخت ہوسکتی ہو، تو مسلم میّتوں کو الگ کرکے انہیں سنت کے مطابق غسل وکفن دیا جائے اور نماز جنازہ پڑھی جائے،اگر مسلم وغیرمسلم کی شناخت نہ ہوسکتی ہو، تو پھرچاہے مسلم میتیں غالب ہوں یا دونوں طرف برابر ہوں یا مسلم میتیں کم ہوں ،تینوں صورتوں میں غسل سب کو دیں اور نمازجنازہ میں نیت صرف مسلمان میت کی نمازجنازہ ادا کرنے کی کریں گے۔ حلبۃ المجلی اور ردالمحتار میں اسی حلبہ کے حوالے سے ہے:

 و اللفظ للحلبہ”لو اختلط موتی المسلمین بموتی الکفار فان کان بالمسلمین علامۃ یتمیزون بھا،فلا اشکال فی اجراء احکام المسلمین علیھم من الغسل والتکفین والصلاۃ و الدفن فی مقابر المسلمین وان لم یکن لھم علامۃ والمسلمون کثیر ،غسلوا و کفنوا و دفنوا فی مقابر المسلمین بعد الصلاۃ علیھم ،وینوی بالدعاء المسلمین“

ترجمہ: اگر مسلمان میتیں،غیرمسلم میتوں کے ساتھ مختلط ہوگئیں،تو اگر مسلمان میتوں کو کسی علامت کے ذریعے جدا کیا جاسکتا ہو تب تو غسل، کفن، نماز، مسلمانوں کے قبرستان میں دفن وغیرہ کے احکام جاری کرنے میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی علامت نہ ہو تو مسلمان میتوں کے غالب ہونے کی صورت میں انہیں غسل وکفن بھی دیا جائے گا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی کیا جائے گا ،اور نماز میں مسلمان میتوں کی دعا کی نیت کریں گے۔ (حلبۃ المجلی جلد 2، صفحہ 620، مطبوعہ بیروت)

مزید اسی میں غیرمسلم میتوں کے غلبے اور مساوی ہونے کی صورتوں کے بارے میں فرمایا:

ینبغی ان یصلی علیھم فی الحالۃ الثانیۃ ایضا ،و قد قال بھا علی ھذا الوجہ من النیۃ الائمۃ الثلاثۃ فی ھذہ الاحوال الثلاث وھو أوجہ ،لأن فیہ قضاء حق المسلمین من غیر ارتکاب منھی عنہ فیتعین،لأنہ حیث کان المنوی بالصلاۃ ھم المسلمون، و کان الدعاء فیھا انما ھو لھم لا غیر،لم یکن مصلیا علی الکفار فی ضمن صلاتہ علی المسلمین

ترجمہ: دوسری صورت(یعنی جب غیرمسلم میتیں غالب ہوں) میں بھی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے،ائمہ ثلاثہ نے تینوں احوال(یعنی مسلم میتیں غالب ہوں یا برابر ہوں یا کم ہوں) میں اسی نیت (یعنی صرف مسلمان میت کیلئے دعا کرنے کی نیت)کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے کا فرمایا ہےاور یہ زیادہ بہتر بھی ہے کیونکہ اس میں کسی ناجائزکام کا ارتکاب کئے بغیر مسلمانوں کے حق کی ادائیگی ہے ،لہذا یہی صورت متعین ہوگی،اس لئے کہ جب نماز میں نیت مسلمان میت کی ہے اور دعا بھی انہیں مسلمان میت کیلئے ہی ہوگی ،ان کے علاوہ کیلئے نہیں ہوگی تو مسلمانوں پر نماز جنازہ پڑھنے کے ضمن میں اسے کفار پر نماز جنازہ کا پڑھنا نہیں کہیں گے۔ (حلبۃ المجلی جلد 2، صفحہ 621، مطبوعہ بیروت)

بہارشریعت میں ہے:” مسلمان مردے کافرمردوں میں مل گئے تو اگر ختنہ وغیرہ کسی علامت سے شناخت کر سکیں تو مسلمانوں کو جدا کر کے غسل و کفن دیں اور نماز پڑھیں اور امتياز نہ ہوتا ہو تو غسل دیں اور نماز میں خاص مسلمانوں کے ليے دُعا کی نیت کریں اور ان میں اگر مسلمان کی تعداد زیادہ ہو تو مسلمانوں کے مقبرہ میں دفن کریں ورنہ علیحدہ۔“(بہار شریعت جلد 1، حصہ 4، صفحہ 815، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد محمد فراز عطاری مدنی

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: OKR-0038

تاریخ اجراء: 02 صفرالمظفر 1447 ھ/ 28 جون 2025 ء