
مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3679
تاریخ اجراء:24 رمضان المبارک 1446 ھ/ 25 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھا جائے تو کیا صرف میت کا چہرہ دکھانے کیلئے میت کو مسجد میں لایا جاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صرف میت کاچہرہ دکھانے کے لیے بھی اسے مسجدمیں نہیں لاسکتے کہ میت کومسجد میں لانا مطلقاً مکروہ ہے۔
محیط برھانی میں ہے "الصلاة على الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة۔۔۔ و لأن تنزيه المساجد عن التلوث واجب، و في إدخال الميت في المسجد احتمال تلويث المسجد بأن يسيل من الميت شيء" ترجمہ: جس مسجدمیں جماعت قائم کی جاتی ہے، اس میں جنازہ پرنمازمکروہ ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مساجدکوگندگی سے بچاناواجب ہے اورمیت کومسجدمیں داخل کرنے میں مسجدکے گندگی کے ساتھ متلوث ہونے کاخطرہ ہے یوں کہ میت سے کوئی چیزنکل کرمسجدمیں گرجائے۔ (المحیط البرھانی، ج 05، ص 307، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”عامہ کتبِ مذہب میں جہاں تک اس وقت نظرِ فقیر نے جولان کیا یہ روایت نوادر بھی برسبیل اطلاق وتعمیم بے تشقیق وتفصیل ماثور و منقول، جو علماء اس کے ترجیح و تصحیح واختیار کی طرف گئے جنازہ کا مسجد میں لانا مطلقاً مکروہ بتاتے ہیں۔ معللین اُسے احتمال وتوہم تلویث سے تعلیل فرماتے ہیں۔ تقیید و تخصیص حالتِ ظن کا پتا نہیں دیتے، علمائےکرام اختلافِ مشائخ کو اُس حالت سے مقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد کے باہر ہو اور مطلقاً صاف تصریح فرماتے ہیں کہ جنازہ کا مسجد میں ہونا بالاتفاق مکروہ۔ اقول وبا للہ التوفیق: یہاں اطلاق ہی اوفق واحق والصق بدلیل ہے کہ امعاء غالباً فضلات سے خالی نہیں ہوتیں اور موت مزیل استمساک و موجب استرخائے تام ہے اور جنازہ لے چلنے کی حرکت مؤید خروج، تو ہر میت میں خوفِ تلویث موجود۔ باقی کس خاص وجہ سے غلبہ ظن کی کیا حاجت، ناسمجھ بچّوں کو مسجد میں لانا مطلقاً ممنوع ہُوا کہ سب میں احتمال تلویث قائم، کچھ یہ شرط نہیں کہ جس بچہ کو اسہال وغیرہ کا عارضہ لاحق ہو وہی مسجد میں نہ لایا جائے، یونہی میت بلکہ اس سے بھی زائد۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 09، ص 260،259، رضا فاونڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم