
مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3696
تاریخ اجراء:25 رمضان المبارک 1446 ھ/ 26 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کچھ لوگ کسی کے انتقال کے بعد چاول، دال، گیہوں، آلو اور پیاز وغیرہ میت کے پاس رکھ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال میں مذکور کاموں سے اجتناب کیا جائے کہ ایسے کاموں کا دین سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان چیزوں کو اگر اس انداز سے رکھا کہ بعد میں کسی کے استعمال میں نہ آئیں، بلکہ ضائع ہو جائیں، تو اب یہ کام شرعاً سخت ناجائز و گناہ قرار پائے گا، کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے مال ضائع کرنے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔
ہاں! اگر اس لئے رکھا ہو کہ بعد میں اسے صدقہ کر دیں تو صدقہ کرنے میں حرج نہیں، لیکن صدقہ کرنے کے لیے یہ میت کے پاس رکھناضروری نہیں اس کے بغیرہی کردیاجائے۔ نیزاس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ اگر یہ میت کی وراثت کے مال سے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ عاقل بالغ ورثاء کے حصے میں سے ہی ہو اور ان کی طرف سے اجازت کے بعد ہو۔
اسراف سے بچنے کے بارے میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ﴿وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ- اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔ (پارہ 8، سورۃ الانعام، آیت 141)
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”إن الله كره لكم ثلاثا: قيل و قال، و إضاعة المال، و كثرة السؤال“ ترجمہ: بیشک اللہ تعالی تمہارے لئے تین کاموں کو ناپسند فرماتا ہے (1) فضول باتیں (2) مال ضائع کرنا (3) سوالات کی کثرت۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 1477، ج 2، ص 124، دار طوق النجاۃ)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: "کلیجی دفن کرنا مال ضائع کرنا ہے اور اضاعتِ مال ناجائز۔" (فتاوی رضویہ، ج 20، ص 455، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے ”ہندوستان میں عام رواج ہے کہ کفنِ مسنون کے علاوہ اوپر سے ایک چادر اُڑھاتے ہیں وہ تکیہ دار یا کسی مسکین پر تصدق کرتے ہیں اور ایک جا نماز ہوتی ہے جس پر امام جنازہ کی نماز پڑھاتا ہے وہ بھی تصدق کر ديتے ہیں، اگر یہ چادر و جا نماز میّت کے مال سے نہ ہوں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے دیا ہے (اور عادۃً وہی دیتا ہے جس نے کفن دیا بلکہ کفن کےليے جو کپڑا لایا جاتا ہے وہ اسی انداز سے لایا جاتا ہے جس میں یہ دونوں بھی ہو جائیں) جب تو ظاہر ہے کہ اس کی اجازت ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر میّت کے مال سے ہے تو دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ ورثہ سب بالغ ہوں اور سب کی اجازت سے ہو، جب بھی جائز ہے اور اگر اجازت نہ دی تو جس نے میّت کے مال سے منگایا اور تصدق کیا اس کے ذمہ یہ دونوں چیزیں ہیں یعنی ان میں جو قیمت صرف ہوئی ترکہ میں شمارکی جائے گی اور وہ قیمت خرچ کرنے والا اپنے پاس سے دے گا، دوسری صورت یہ کہ ورثہ میں کُل یا بعض نابالغ ہیں تو اب وہ دونوں چیزیں ترکہ سے ہرگز نہیں دی جا سکتیں، اگرچہ اس نابالغ نے اجازت بھی دیدی ہو کہ نابالغ کے مال کو صرف کر لینا حرام ہے۔ لوٹے گھڑے ہوتے ہوئے خاص میّت کے نہلانے کے ليے خریدے تو اس میں یہی تفصیل ہے۔ تیجہ، دسواں، چالیسواں، ششماہی، برسی کے مصارف میں بھی یہی تفصیل ہے کہ اپنے مال سے جو چاہے خرچ کرے اور میّت کو ثواب پہنچائے اور میّت کے مال سے یہ مصارف اسی وقت کيے جائیں کہ سب وارث بالغ ہوں اور سب کی اجازت ہو ورنہ نہیں مگر جو بالغ ہو اپنے حصہ سے کر سکتا ہے۔ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 821 ،822، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم