
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-660
تاریخ اجراء:12 شعبان المعظم 1446 ھ/ 11 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر سمندر میں ڈوبنے کے بعد کسی شخص کی صرف ہڈیاں ملی ہوں یا جلنے کے بعد صرف ہڈیاں رہ گئی ہوں، تو کیا اُن پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر سمندر میں ڈوبنے کے بعد کسی شخص کی صرف ہڈیاں ملی ہوں یا جلنے کے بعد صرف ہڈیاں رہ گئی ہوں، تو ان پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔اس طرح کی صورتحال میں کہ جب میت کی صرف ہڈیاں ملیں تو حکم یہ ہے کہ اُن ہڈیوں کو بغیر غسل اور کفن کےمحض کسی کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔
چنانچہ علامہ کاسانی علیہ الرحمۃ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں: ’’أن العظام لايصلى عليها بالإجماع‘‘ ترجمہ: بیشک ہڈیوں پر بالاجماع نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔(بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 302، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
التجرید للقدوری میں ہے:’’العظام لا يصلى عليها باتفاق؛ لأن البلى يمنع الصلاة ‘‘ترجمہ:ہڈیوں پر بالاتفاق نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی،کیونکہ بوسیدگی(فنا ہوجانا) نماز سے مانع ہے۔(التجرید للقدوری، جلد 3، صفحہ 1099، مطبوعہ قاھرۃ)
نماز جنازہ کیلئے میت کا بدن موجود ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی، چنانچہ محیط برہانی میں ہے: ’’روي عن ابن عباس، و ابن مسعود رضي الله عنهما أنهما قالا: «لايصلى على عضو» ۔۔۔و هذا لأن صلاة الجنازة ما عرفت قربة بدون الميت، و الميت اسم لجميع البدن، و لم يوجد جميع البدن، و لا أكثر البدن، إنما وجد منه البعض، و المعدوم أكثر من الموجود، فيرجح العدم على الموجود، فكأنه لم يوجد شيء من البدن، و بدون بدن الميت لا تقام صلاة الجنازة‘‘ ترجمہ: روایت ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’عضو پر نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی‘‘۔۔۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ نماز جنازہ، میت کے بغیر قربت نہیں جانی جاتی ، اور میت کا لفظ پورے بدن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر پورا بدن یا زیادہ تر بدن موجود نہ ہو، بلکہ صرف کچھ حصہ موجود ہو، اور معدوم (غائب) ہونے والا حصہ، موجود حصے سے زیادہ ہو، تومعدوم (غائب) کو موجود پر ترجیح دی جائے گی، گویا بدن کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے، اور میت کے بدن کے بغیر نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی۔(المحیط البرھانی، جلد 2، صفحہ 203، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
میت کی صرف ہڈیاں ملنے پر اُنہیں بغیر غسل اور کفن کے کسی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے گا،چنانچہ بہار شریعت میں ہے: ’’اگر (میت کا آدھا حصہ ملے جس میں) سر نہ ہو یا طول ميں سر سے پاؤں تک دہنا یا بایاں ایک جانب کا حصہ ملا تو ان دونوں صورتوں میں نہ غسل ہے،نہ کفن، نہ نماز بلکہ ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں۔‘‘(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 815، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم