
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد محترم کا انتقال ہوا، تو غسل ہوجانے کے بعد آخری دیدارکرواتے ہوئے میری بڑی بہن نے فرط محبت میں چہرے پر ہاتھ لگا کر محبت کا اظہار کرنا چاہا، تو اس پر خاندان کے بعض افراد نے بہن کو برا بھلا کہا اوربعض نے یہ بھی کہا کہ غسل میت کے بعد بلاحائل چھونا سخت گناہ ہے۔ برائے کرم یہ رہنمائی فرمادیں کہ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا واقعی غسلِ میت کے بعد چھونا گناہ ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
آپ کی بہن کا اپنے والد مرحوم کے انتقال کے بعد فرطِ محبت سے ان کے چہرے پر ہاتھ لگانا بلاشبہ جائز فعل تھا۔ یاد رہے اگر کسی ناجائز فعل کا ارتکاب کیے بغیر انتقال کے بعد میت کو چھوا جائے یا بوسہ لیا جائے، تو شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں، اگرچہ غسل میت ہوچکا ہو یا غسل میت کا سلسلہ باقی ہو، بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فرطِ محبت سے میت کی پیشانی چومنا حدیث پاک سے ثابت ہے اور فقہائے کرام کی واضح صراحتیں موجود ہیں کہ انتقال سے مسلمان کی میت صرف حکمی طورپر ناپاک ہوتی ہے، اس لیے میت کو غسل دیے جانے سے پہلے چھونا یا بوسہ لینا بھی جائز ہے، نیز غسل کے بعد بھی میت کو چھونے کی کوئی ممانعت نہیں، بلکہ فقہائے کرام نے واضح طور پر فرمایا کہ غسل میت کے بعد شہادت کی انگلی سے میت کی پیشانی پر بسم اللہ شریف لکھ دی جائے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کی بہن کے اس جائز فعل پر جن افراد نے بُرا بھلا کہا، وہ غلطی پر ہیں، انہیں چاہیے کہ اس جائز فعل کو گناہ کہنے سے توبہ کریں اورآپ کی بہن کو بلاوجہ بُرا بھلا کہنے کی وجہ سے ان سے معافی بھی مانگیں۔
ابو داؤد شریف میں ہے:
’’عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقبل عثمان بن مظعون و ھو میت حتی رایت الدموع تسیل“
یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو عثمان بن مظعون کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا، جبکہ ان کا انتقال ہوچکا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے آنسو بہہ رہے تھے۔ (سنن ابی داؤد، جلد 2، صفحہ 98، مطبوعہ لاھور)
مرقاۃ المفاتیح میں اس روایت کو نقل کرنےکے بعد فرمایا:
’’یعلم من ھذا ان تقبیل المسلم بعد الموت و البکاء علیہ جائز“
یعنی اس روایت سے معلوم ہوا کہ موت کے بعد مسلمان میت کا بوسہ لینا اور اس پر (بغیر آوازکے) رونا جائز ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 4، صفحہ 16، مطبوعہ ملتان)
بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’دخل علی عائشۃ رضی اللہ عنھا فتیمم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وھو مغشی بثوب حبرۃ فکشف عن وجھہ ثم اکب علیہ فقبلہ و بکی، ثم قال: بابی انت وامی“
یعنی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرے میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حبرہ چادراوڑھائی گئی تھی ، آپ رضی اللہ عنہ نے چہرہ مبارک سے چادرہٹائی، پھرجھکے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا بوسہ لیا اور روئے پھر کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ (صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 166، مطبوعہ کراچی )
جب سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیااس وقت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو غسل نہیں دیاگیاتھا جیساکہ عمدۃ القاری میں ہے :
’’و ھو مسجی ببرد حبرۃ و لم یکن حینئذ غسل، فضلا عن ان یکون مدرجا فی الکفن“
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حبره چادر سے ڈھک دیا گیا تھا اور اس وقت غسل بھی نہیں ہوا تھا، چہ جائیکہ کفن میں داخل کردیا گیا ہو۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، جلد 6، صفحہ 18، مطبوعہ ملتان)
نورالایضاح میں ہے :
’’و لا باس بتقبیل المیت للمحبۃ والتبرک تودیعاخالصۃ عن محظور“
یعنی میت کا محبت، برکت اور رخصت وغیرہ کرنے کے مقصد سے بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ ممنوع شرعی کام سے بچ کر ایسا کیا جائے۔ (نورالایضاح مع حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، صفحہ 573، مطبوعہ کراچی)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
’’اختلفوا فی نجاسۃ المیت فقیل نجاسۃ خبث و قیل حدث و یشھد للثانی ما رویناہ من تقبیلہ صلی اللہ علیہ و سلم عثمان بن مظعون و ھو میت قبل الغسل، اذ لو کان نجسا لما وضع فاہ الشریف علی جسدہ“
یعنی میت کی نجاست میں اختلاف ہے ، ایک قول یہ کیا گیا کہ گندگی کی وجہ سے ناپاک ہے اور ایک قول یہ کیا گیا کہ حدث کی وجہ سے ناپاک ہے، دوسرے قول کی تائید وہ حدیث ہے، جسے ہم نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا ان کے انتقال کے بعد غسل سے پہلے بوسہ لیا، کیونکہ اگر مرنے سے ناپاک ہوجاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنا دَہَن اقدس ان کے جسم پر نہ لگاتے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، جلد 2،صفحہ 198، مکتبہ غوثیہ، کراچی)
دوسرے قول کی ترجیح بیان کرتے ہوئے جد الممتارمیں فرمایا:
’’فثبت و للہ الحمد ان الحدیث ینفی تنجس المسلم بالموت فوجب کما قال المحققان ترجیح ان غسلہ للحدث و قد قال فی البحر انہ الاصح“
یعنی بحمداللہ یہ ثابت ہوگیا کہ حدیث پاک سے موت کی وجہ سے مسلمان کے نجس ہونے کی نفی ہوتی ہے، تو دونوں محققوں کے فرمان کے مطابق اس کی ترجیح ضروری ہے کہ غسل میت حدث کی وجہ سے ہے اوربحرمیں فرمایا یہی اصح ہے۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 645، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
غسل میت کے بعد بھی میت کو چھونے میں حرج نہیں، جیسا کہ رد المحتارمیں ہے:
’’یکتب علی جبھۃ المیت بغیر مداد بالاصبع المسبحۃ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ و علی الصدر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ، و ذلک بعد الغسل قبل التکفین“
یعنی میت کی پیشانی پر بغیر روشنائی کے کلمہ کی انگلی سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھیں اور سینے پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھیں اور یہ لکھنا غسل کے بعد کفن پہنانے سے پہلے ہو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، جلد 3، صفحہ 186، مطبوعہ کوئٹہ)
ذو رحم محرم کی میت کوبلاحائل چھونا، جائزہے، جیساکہ حاشیہ شرنبلالی علی درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:
’’رجل ذو رحم محرم یمسھا بلاخرقۃ“
یعنی ذی رحم محرم خرقہ (کپڑا وغیرہ حائل) کے بغیر بھی چھوسکتاہے۔ (حاشیہ شرنبلالی علی درر الحکام شرح غرر الاحکام، جزو 1، صفحہ 160، مطبوعہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
فتویٰ نمبر: Nor-11105
تاریخ اجراء: 27 ربیع الاول 1442ھ / 14 نومبر 2020ء