
مجیب: ابو مصطفی محمد کفیل
رضا مدنی
فتوی نمبر:Web-881
تاریخ اجراء: 05رمضان المبارک1444 ھ /27مارچ2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی
صورت میں بچے کے کان میں اذان دینے
کی حاجت نہیں کہ اذان و اقامت
کہنے کا جو فائدہ تھا
(یعنی بلاؤں اور
شیطانی آفات سے محفوط
ہونا ) وہ باقی نہیں رہا ۔
بہارِ شریعت میں ہے:” جب بچہ پیدا ہو تو
مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے اذان کہنے
سے ان شاء اﷲتعالیٰ بلائیں دور ہو
جائیں گی۔“(بہارِ شریعت ، حصہ 15، صفحہ 355،
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
البتہ جب یہ بچہ زندہ پیدا ہوا اور پھر اس کا انتقال ہوا،تو اس صورت میں
اس کو غسل و کفن دیا جائےگا اور اس کی نمازِ جنازہ بھی ادا
کی جائے گی ،جہاں تک نام کا تعلق ہے ، تو نام بہر صورت رکھا جائے گا
خواہ مردہ ہی پیدا ہوا یا
پیدا ہونے کے بعد انتقال ہوا ۔
صدر الشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مسلمان مرد
یا عورت کا بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصہ باہر ہونے کے
وقت زندہ تھا پھر مر گیا ، تو اس کو غسل و کفن دیں گے اور اس کی
نماز پڑھیں گے۔۔۔بچہ زندہ پیدا ہوا یا مردہ ،
اس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہر حال اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اس کا حشر ہوگا۔ “
(بہارِ شریعت
ملتقطاً، جلد1،صفحہ 841، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم