پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کرنا اور جگہ بدلنا کیسا؟

پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کھولنا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9228

تاریخ اجراء:22 رجب المرجب 1446ھ / 23 جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میری بہن کا 2 جنوری 2025 کو قتل ہوا۔ ہم نے تدفین کر دی۔ تدفین کے بعد ملزم نے کچھ لوگوں کے سامنے اقرار کیا ہے کہ میں نے قتل کیا ہے۔ اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنی بہن کا پوسٹ مارٹم کروائیں، تاکہ تمام مجرموں کو سزا ملے۔ ہماری اس بارے میں رہنمائی فرمائیں، نیز یہ بھی بتائیے کہ کیا پوسٹ مارٹم کے بعد بہن کی قبر کی جگہ بدل سکتے ہیں؟ یعنی جہاں پہلے مدفون ہے، وہاں سے ہٹا کر کسی دوسری  جگہ دفنا دیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب میت کی تدفین کر دی گئی تو  دفن  کرنے کے بعد بلاعذرِ شرعی قبر کشائی کرنا یا میت کو دوسری  جگہ منتقل کرنا حرام اور اَسرارِ الہیہ میں دَرْاندازی اور مداخلت کرنا ہے۔ ہماری شریعت  اِس فعل کی قطعاً  اجازت نہیں دیتی اور یاد رکھیےکہ پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے اپنے فوت شدہ عزیز کی قبر  کھولنا، ہر گز عذرِ شرعی نہیں ہے۔بلکہ سوال میں بیان کردہ صورتِ حال  یعنی مجرموں کی تشخیص کے لیے  ازخود پوسٹ مارٹم  کی استدعا کرنا، حالانکہ قاتل اقرار کرچکا، ناجائز و گناہ اور حرام ہے، کیونکہ پوسٹ مارٹم میں  لاش کو برہنہ کرنے، مختلف اعضاء کو کاٹنے اور جسم سے جدا کرنے جیسے بہت سے ایسے افعال ہوتے ہیں کہ   ہمارا دینِ اسلام ہرگز  اُن کی اجازت نہیں دیتا۔ لہذا پوسٹ مارٹم  کی استدعا یا قبر کشائی  کا  اِقدام ہرگز نہ کریں، البتہ دیگر قانونی چارہ جوئی  کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

   مسلمان کی قبر کا احترام بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: لأن ‌أمشي على جمرة أو سيف أو أخصف نعلي برجلي، أحب إلي من أن ‌أمشي ‌على ‌قبر ‌مسلم۔ ترجمہ: میں انگارے یا تلوارپر چلوں یا اپنا جوتا اپنے قدم سے سِی لوں، یہ عمل مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں کسی مسلمان کی قبر پر قدم رکھوں اور چلوں۔(سنن ابن ماجۃ، جلد 02، صفحہ 508، مطبوعه دار الرسالۃ العالمیہ)

   قبرکشائی کی حرمت اور پھر عذرِ شرعی کی وضاحت کرتے ہوئے امام کمال الدین  ابنِ ہُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 861ھ / 1456ء) لکھتےہیں: لا ينبش ‌بعد ‌إهالة ‌التراب لمدة طويلة و لا قصيرة إلا لعذر قال المصنف في التجنيس: و العذر أن الأرض مغصوبة أو يأخذها شفيع، ولذا لم يحول كثير من الصحابة و قد دفنوا بأرض الحرب إذ لا عذر۔ ترجمہ: قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد میت کو ہر گز نہیں نکال سکتے، خواہ  تدفین کو کچھ وقت ہی ہوا ہے یا مدت بِیت چکی ہو، ہاں اگر عذرِ شرعی متحقق ہو، تو نکال سکتے ہیں۔ مصنف نے ”التجنیس“ میں فرمایا: عذر یہ ہے کہ زمین مغصوبہ ہو یا شفیع اُسے حاصل کر لے، اِسی وجہ سے کثیر صحابہ کے مقامِ دفن کو منتقل نہیں کیا گیا، حالانکہ اُنہیں دار الحرب میں دفن کیا گیا تھا، وجہ وہی تھی کہ عذرِ شرعی ثابت  نہیں تھا۔(فتح القدیر، جلد 02، صفحہ 149، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/ 1921ء) سے سوال ہوا کہ کیا بعدِ دفن میت کو کسی دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔ آپ نے جواب دیا:صورتِ مذکورہ میں نبش حرام، حرام ، سخت حرام، اور میّت کی اشد  توہین  و ہتک سرّ رب العٰلمین ہے۔(فتاوٰی رضویہ، جلد 09، صفحہ 405، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   پوسٹ مارٹم کرنا، ناجائز و حرام ہے، کیونکہ اس میں میت کو سخت تکلیف پہنچتی ہے اور میت کو تکلیف دینا حرام ہے، بلکہ مردے  کو تکلیف پہنچانا ایسا ہی ہے، جیسے کسی زندہ شخص کے بدن کو تکلیف دینا، چنانچہ ”سنن ابی داؤد“ میں ہے: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم قال: كسر ‌عظم ‌الميت ككسره حيا۔ترجمہ:بے شک مردہ مسلمان کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے،  جیسے زندہ مسلمان کی ہڈی توڑنا۔(سنن ابی داؤد، جلد 05، صفحہ 116، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیہ، بیروت)

   اِس حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1391ھ / 1971ء)لکھتےہیں: اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا یا اسے مردہ خانہ رکھ کر اس کی کھال اتارنا، اس کے پرزے اڑا دینا،عرصہ تک دفن نہ کرنا سخت ممنوع ہے۔ ضروریاتِ شرعیہ اِس سے مستثنی ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، جلد 02، صفحہ 416، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252ھ / 1836ء) نے لکھا: أن الميت يتأذى بما يتأذى ‌به ‌الحي۔ ترجمہ: ميت بھی ہر اُس چیز سے تکلیف محسوس کرتی ہے، جس سے زندہ شخص تکلیف محسوس کرتا ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 438، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم