قبر کتنی گہری ہونی چاہیے؟

 

قبر کتنی گہری ہونی چاہیے؟  تفصیلی فتویٰ

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-2740

تاریخ اجراء:08  شعبان المعظم 1446 ھ/ 07 فروری 2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قبر کی گہرائی کے حوالے سے اسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے کہ قبر کتنی گہری ہونی چاہیے؟ ہماری جماعت میں کچھ لوگ قبر کو صرف اتنی گہری بناتے ہیں کہ میت کو لِٹایا جائے، تو میت چھپ جاتی ہے، یعنی ڈیڑھ دو فٹ تک گہری بناتے ہیں اور پھر اوپر سلیپ وغیرہ سے بند کر کے اوپر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے دلائل کے ساتھ رہنمائی فرما دیں، تاکہ میں اپنی جماعت والوں کو دکھا سکوں اور پھر اسی کے مطابق ہی قبریں تیار کیا کریں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ میت کو مٹی کی اتنی  گہرائی میں دفن کیا جائے کہ  درندے وغیرہ اس کے جسم کو عمومی طور پر کھانہ سکیں اور ہواؤں وغیرہ سے قبر کا اوپر والا حصہ جلد کھل نہ سکے  اور میت کے ساتھ خدا کا غیبی معاملہ یا میت کا بوسیدہ جسم یا ہڈیاں  لوگوں پر ظاہر نہ ہوں۔ ان حکمتوں کے پیش نظراسلام نے میت کو قبر میں دفن کرنے اور پھر دفن کے لیے قبر کو گہرا رکھنے کا بھی حکم دیا، جس کے لیے ایک دو فٹ قبر کو گہرا کرنا کافی نہیں، کیونکہ ایک دو فٹ گہرا کرنے سے میت کے ظاہر ہونے ، جانوروں کے نکال لینے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے، بالخصوص بارشوں وغیرہ پانی کی وجہ سے قبریں ظاہر ہوجاتی ہیں، اس لیے قبر کی گہرائی کے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ سب سے بہترین اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کھڑے انسان کے   پورے قد کے برابر گہری بنائی جائے، درمیانہ درجہ یہ ہے کہ سینے کے برابر ہو، ورنہ کم از کم نصف قد کے برابر ہونی چاہیے، اس سے کم نہ ہو۔ نیز قبر کی گہرائی کے حوالے سے مرد اور عورت کی قبر میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں کے لیے مذکورہ بالا ایک ہی حکم ہی ہے۔

   قبر گہری بنانے کے دلائل:

   میت کو دفن کرناحکمِ قرآنی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے: ﴿ فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ترجمۂ کنز العرفان :”پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا، جو زمین کرید رہا تھا، تا کہ وہ اسے دِکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ (کوے کا واقعہ دیکھ کر قاتل نے) کہا: ہائے افسوس، میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپالیتا تو وہ پچھتانے والوں میں سے ہوگیا۔(پارہ 6، سورۃ المائدہ، آیت 31)

   اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے: وَأَمَّا دَفْنُهُ فِي التُّرَابِ وَدَسُّهُ وَسَتْرُهُ فَذَلِكَ وَاجِبٌ، لِقَوْلِهٖ تَعَالَى۔۔۔ الخترجمہ: میت کو مٹی میں دفن کرنا اور مٹی کے اندر چھپانا اوپر بیان کردہ آیتِ کریمہ کی وجہ سے واجب ہے۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد 4، صفحہ 301، مطبوعہ دار الکتب المصریہ، قاھرہ)

   میت کو دفن کرنے میں اس کا اعزاز ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ہے: ﴿ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ترجمہ کنز العرفان: ”پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں رکھوایا۔“(پارہ 30، سورۃ عبس، آیت 21)

   اس آیت کریمہ کے تحت دفن کی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”یہ تعلیمِ الہی جو پہلے تو استعداد کی کمی کی وجہ سے قابیل کو کوے کے ذریعے واقع ہوئی اور دوسری دفعہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو فرشتوں کے ذریعے تعلیم دی گئی، ایک عظیم نعمت اور قابلِ تحسین اعزاز ہے۔ اگر آدمی کی لاش کو دوسرے حیوانات کی طرح سطح زمین پر ہی چھوڑ دیتے، تو متعفن ہوکر بدبو پھیلاتی اور لوگوں کے مشام کو پریشان کرتی اور اس میت سے لوگ متنفر ہوتے اور بدگوئیاں کرتے۔ نیز درندے اور پرندے اس کے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے لے جاتے اور ناپاک مردار خور جانور اسے اپنا لقمہ بنا لیتے اور اسے بڑی حقارت لاحق ہوتی اور اس کے عیب بے پردہ ہوکر عام خاص میں مشہور ہوجاتے اور اس کی قدر لوگوں کی نظر میں کم ہوجاتی۔ ناچار اسے عزت دینے کے لیے اس طریقہ کی غیب سے تعلیم دی گئی۔“(تفسیر عزیزی مترجم، پارہ30، صفحہ 96، مطبوعہ نوریہ رضویہ پبلی کیشنز، فیصل آباد)

   حدیثِ پاک میں ہے: ”عَن ابْنِ عَبَّاس عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ إِذا مَاتَ لأحدكم الْمَيِّت فَأحْسنُوا كَفنه و عجلوا بإنجاز وَصيته و أعمقوا لَهُ فِي قَبره“ ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے، تو اس کا کفن اچھا تیار کرو، اس کی وصیت جلدی پوری کرو اور اس کی قبر گہری بناؤ۔(شرح الصدور، صفحہ 107، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت)

   غزوہ اُحد کے دن صحابہ کرام علیہم الرضوان زخمی اور تھکے ہوئے تھے ، اس کے باوجود نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے شہداء کی قبریں گہری بنانے کا حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے: شَكَوْا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْقَرْحَ وَ الْحَفْرَ لِكُلِّ إِنْسَانٍ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ: «احْفِرُوا وَ أَعْمِقُوا وَ أَحْسِنُوا وَ ادْفِنُوا الِاثْنَيْنِ وَ الثَّلَاثَةَ فِي قَبْرٍ»ترجمہ: صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے زخمی ہونے اور ہر شہید کے لیے قبر بنانے کے حوالے سے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: قبریں بناؤ، گہری اور اچھی بنانا اور ایک قبر میں دو، تین میتوں کو دفن کرو۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 22، صفحہ 172، مطبوعہ قاھرہ)

   شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر گہری کرنا سنت ہے،کہ اس میں میت کے ضائع ہونے سے حفاظت ہے۔“(اشعۃ اللمعات مترجم، کتاب الجنائز، باب الدفن، الفصل الثانی، جلد 2، صفحہ 876، مطبوعہ فرید بک سٹال، لاھور)

   قبر گہری بنانے کی وجہ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمائی، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے: ”رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ – قال "عَمِّقُوا قبور موتاكم لأن لا تريح عليكم"“ ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اپنے فوت شدگان کی قبروں کو گہرا رکھا کرو، تاکہ بدبو نہ پھیلے۔(الحاوی الکبیر فی فقہ الشافعی، کتاب الجنائز، باب عدد الکفن، جلد 3، صفحہ 24، مطبوعہ بیروت)

   شیخ خطیب شربینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ان الحكمة في وجوب الدفن عدم انتهاك حرمته بانتشار رائحته و استقذار جيفته، و أكل السباع له۔۔۔ إنه لا يكفي الدفن فيما يصنع الآن ببلاد مصر و الشام و غيرهما من عقد أزج واسع أو مقتصد شبه بيت لمخالفته الخبر و إجماع السلف۔۔۔ و هذا ظاهر؛ لأنه ليس بدفن كما أشار إلى ذلك ابن الصلاح و الأذرعي و غيرهما، و احترز بالحفر عما إذا وضع الميت على وجه الأرض و وضع عليه أحجار كثيرة أو تراب أو نحو ذلك مما يكتم رائحته و يحرسه عن أكل السباع، فلا يكفي ذلكترجمہ: میت کو دفن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس کی بدبو پھیلنے، لاش کی ناپاکی اور جانوروں کے لاش کو کھاجانے کی وجہ سے اس کی بے حرمتی نہ ہو۔ مصر اور شام وغیرہ کے کچھ شہروں میں جس طرح تدفین کی جاتی ہے یعنی لمبے چوڑے کمان کی طرح بنی ہوئی عمارت میں یا کمرہ نما کوٹھڑی میں میت کو دفن کرنا کافی نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث پاک اور سلف صالحین کے اجماع کے خلاف ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے، کیونکہ یہ (در حقیقت) دفن کرنا ہی نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن صلاح اور امام ابن اذرعی وغیرہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور کھودنے کے ذکر سے اس چیز سے احتراز کیا ہے کہ میت کو زمین کے اوپر رکھ دیا جائے اور پتھروں یا مٹی وغیرہ کسی بھی ایسی چیز سے چھپا دیا جائے، جس سے بدبو بھی نہ آئے اور درندوں سے بھی بچ جائے، پھر بھی (دفن والا عمل نہ پائے جانے کی وجہ سے) یہ کافی نہیں ہے۔(مغنی المحتاج، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 36، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ قبر کو گہرا بنانا سنت ہے، جیسا کہ محیط برہانی میں ہے: في قوله عليه السلام: «أعمقوا» دليل على أن السنّة في القبر أن يعمقترجمہ: حدیثِ پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان کہ ”قبریں گہری بناؤ“ اس بات کی دلیل ہے کہ قبر کو گہرا بنانا سنت ہے۔(المحیط البرھانی، کتاب الجنائز، الفصل الثانی و الثلاثون، جلد 2، صفحہ 193، مطبوعہ بیروت)

   قبر کتنی گہری ہونی چاہیے؟ اس کے دلائل:

   سینے اور قد کے برابر گہرائی ہونے سے متعلق محیط برہانی میں ہے: و عن عمر رضي الله عنه أنه قال: يعمق القبر صدر رجل، و إن عمقوا مقدار قامة الرجل فهو أحسن ترجمہ:سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: قبر کو بندے کے سینے کے برابر گہرا کیا جائے اور اگر اس کے قد کے برابر گہرا بناؤ ، تو بہت اچھا ہے۔(المحیط البرھانی، کتاب الجنائز، الفصل الثانی و الثلاثون، جلد 2، صفحہ 193، مطبوعہ بیروت)

   تنویر الابصار مع در مختار میں ہے: ’’(و حفر قبرہ مقدار نصف قامۃ) فان زاد فحسن‘‘ ترجمہ: اور میت کی قبر، نصف قد کے برابر کھودی جائے، ہاں اگر اس سے زیادہ گہری ہو تو بہتر ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ’’قولہ: (مقدار نصف قامۃ الخ) او الی حد الصدر و ان زاد الی مقدار قامۃ فھو احسن کما فی الذخیرۃ فعلم ان الادنی نصف القامۃ و الاعلی القامۃ و الاوسط ما بینھما، شرح المنیۃ‘‘ ترجمہ: مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(نصف قدکی مقدار الخ)یا سینہ کی حد تک اور پورے قد کی مقدار تک زائد ہو، تو زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ ذخیرہ میں ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ کم سے کم مقدار نصف قد ہے اور زیادہ سے زیادہ کی مقدار پورا قد ہے اور درمیانی مقدار ان دونوں کے درمیان ہے،شرح منیہ۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، باب الجنائز، مطلب فی دفن المیت، جلد 3، صفحہ 164، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتح باب العنایہ میں ہے:و يحفر القبر نصف القامة، أو إلى الصدر، و إن زيد كان حسنا، لأنه أبلغ في منع الرائحة، و دفع السباعترجمہ: قبر کو نصف قد کے برابر یا پھر سینے تک کھودا جائے اور اگر اس پر زیادتی کی جائے تو یہ اچھا ہے، کیونکہ اس میں بدبور و کنے اور درندوں سے بچانے کے لیے یہ زیادہ سے زیادہ اہتمام ہے۔(فتح باب العناية بشرح النقايہ، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 452، مطبوعہ بيروت)

   شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”شریعت مطہرہ نے قبر کا گہرا ہونا اس واسطے رکھا ہے کہ احیاء کی صحت کو ضرر نہ پہنچے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 9، صفحہ  382، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مرد اور عورت کی قبر کی گہرائی میں کوئی فرق نہیں ہے، چنانچہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”عورت اور مرد کی قبر میں کچھ فرق نہیں کہ عورت کی زیادہ گہری ہو اور مرد کی کم (ایسا کچھ نہیں ہے) قبر کا ادنیٰ درجہ نصف قد ہے اور اوسط درجہ سینہ تک اور سب سے بہتر یہ کہ قدبرابر ہو۔ ریتلی زمین میں جس میں سے جانور مُردے کو نکال لیتے ہیں اگر ممکن ہو تو قدبرابر کھودیں کہ مسلم کی لاش بے حرمتی سے محفوظ رہے۔‘‘ (فتاوی امجدیہ، جلد 2، صفحہ 365، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم