قبر میں عہد نامہ یا شجرہ رکھنے کا شرعی حکم

قبر میں عہد نامہ رکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1) قبر میں عہدنامہ یا شجرہ وغیرہ رکھنا کیسا ہے؟ (2) اگر جائز ہے تو انہیں قبر میں کس جگہ رکھا جائے؟

سائل: حاجی محمد اقبال (مسلم آباد، کراچی)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

(1) عہد نامہ اگر میت کی پیشانی یا اس کے عمامہ یا اس کے کفن پر لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اللہ عَزَّ وَ جَلَّ میت کی مغفرت فرمادے اور اسے عذابِ قبر سے محفوظ فرمائے، اسی طرح دیگر متبرک اشیاء کو برکت کی نیت سے قبر یا کفن میں رکھنا جائز ہے بلکہ احادیث، صحابۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان کے عمل، کُتبِ فقہ اور اقوالِ بزرگا ن دین سے بھی ثابت ہے اور ان متبرک اشیاء کے قبر میں موجود ہونے کے سبب اللہ عَزَّ وَ جَلَّ سے امید ہے کہ میت کو نفع پہنچے گا۔

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

اخبرنا معمر بن عبد اللہ بن محمد بن عقیل ان فاطمۃ رضی اللہ عنھا لما حضرتھا الوفاۃ امرت علیا فوضع لھا غسلا فاغتسلت و تطھرت و دعت بثیاب اکفانھا فلبستھا و مست من الحنوط ثم امرت علیا ان لا تکشف اذا ھی قبضت وان تدرج کما ھی فی اکفانھا فقلت لہ ھل علمت احدا فعل نحو ذلک قال نعم کثیر بن عباس وکتب فی اطراف اکفانہ یشھد کثیر بن عباس ان لا الہ الا اللہ

یعنی معمربن عبداللہ بن محمد عقیل نے ہمیں خبر دی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انتقال کے قریب امیر المومنین علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے اپنے غسل کے لیے پانی رکھوادیا پھر نہائیں اور کفن منگا کر پہنا اور حنوط کی خوشبو لگا ئی پھر مولیٰ علی کو وصیت فرمائی کہ میرے انتقال کے بعد کوئی مجھے نہ کھولے اور اسی کفن میں دفن فرما دی جائیں میں نے پوچھا کسی اورنے بھی ایسا کیا؟ کہا: ہاں کثیر بن عباس نے اور انہوں نے اپنے کفن کے کناروں پر لکھا تھا کہ کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔  (مصنف عبدالرزاق، 3 / 411)

رد المحتار میں علامہ شامی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں:

’’و في البزازية قبيل كتاب الجنايات و ذكر الامام الصفار لو كتب على جبهة الميت او على عمامته او كفنه عهد نامه يرجى ان يغفر الله تعالى للميت و يجعله آمنا من عذاب القبر‘‘

یعنی بزازیہ میں کتاب الجنایات سےتھوڑا پہلے ہے کہ امام صفار علیہ الرّحمہ نے فرمایا اگر میت کی پیشانی یا اس کے عمامہ یا اس کے کفن پر عہد نامہ لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میت کی مغفرت فرمادے اور اسے عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔ (در مختار مع رد المحتار، 3 / 185)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرّحمہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصر امام بخاری رحمہمااللہ نے نوادر الاصول میں روایت کی کہ خود حضور پُر نور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا:

من کتب ھذا الدعاء و جعلہ بین صدر المیت و کفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر و لا یری منکرا و نکیراً و ھو ھذا لاالٰہ الا ﷲ وﷲ اکبرلا الٰہ الا ﷲ وحدہ، لا شریک لہ لاالٰہ الا ﷲ لہ الملک و لہ الحمد لا الٰہ الا ﷲ و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم 

جو یہ دُعا کسی پرچہ پر لکھ کر میّت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں، اور وہ دعا یہ ہے:

لا الٰہ الااﷲ و ﷲ اکبر لا الٰہ الا ﷲ وحدہ، لاشریک لہ لاالٰہ الا ﷲ لہ الملک و لہ الحمد لاالٰہ الا ﷲ و لاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔

مزید فرماتے ہیں: ’’ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے فرمایا: جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے:

اللھم فاطر السموت و الارض عالم الغیب و الشھادۃ الرحمٰن الرحیم انی اعھد الیک فی ھذہ الحیاۃ الدنیا بانک انت اﷲ الذی لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک و ان محمّداً عبدک و رسولک فلا تکلنی الی نفسی فانک ان تکلنی الی نفسی تقربنی من الشر و تباعدنی من الخیر و انی لا اثق الا برحمتک فاجعل رحمتک لی عھداً عندک تؤدیہ الی یوم القیمۃ انک لاتخلف المیعاد

فرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے، جب اللہ تعالٰی اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں، انہیں وہ عہد نامہ دیا جائے‘‘۔

امام نے اسے روایت کرکے فرمایا: و عن طاؤس انہ امر بھذہ الکلمات فکتبت فی کفنہ امام طاؤس کی وصیّت سے عہد نامہ اُن کے کفن میں لکھا گیا۔ امام فقیہ ابن عجیل نے اسی دعائے عہد نامہ کی نسبت فرمایا:

اذاکتب ھذا الدعاء و جعل مع المیت فی قبرہ وقاہ اﷲ فتنۃ القبر و عذابہ

جب یہ دعا لکھ کر میّت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو اللہ تعالٰی اُسے سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے امان دے۔ (فتاوی رضویہ، 9 / 108 ، 109)

تبرکات کے بارے میں بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:

’’عن ام عطية الانصارية رضي الله عنها قالت دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفيت ابنته فقال اغسلنها ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك ان رايتن ذلك بماء وسدر و اجعلن في الآخرة كافورا او شيئا من كافور فاذا فرغتن فآذنني فلما فرغنا آذناه فاعطانا حقوه فقال اشعرنها اياه

یعنی حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ جب ہم حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی صاحب زادی کو غسل دے رہی تھیں تو ہمارے پاس رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ و سلَّم تشریف لائے اور فرمایا کہ انہیں تین بار یا پانچ بار اور اگر مناسب جانو تو اس سے زائد بار بیری کے پتوں والے پانی سے غسل دو اور آخر میں کافور ڈال دو یا فرما یا کچھ کافور ڈال دو جب ہم فارغ ہو گئیں تو ہم نے آپ کو اطلاع دی تو آپ صلَّی اللہ علیہ و سلَّم نے ہمیں اپنا تہبند شریف عطا کیا اور فرمایا کہ اسے ان کے کفن میں رکھ دو۔‘‘ (بخاری، 1 / 168)

اسی حدیث مبارکہ کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ بزرگوں کے بال ، ناخن ، ان کے استعمالی کپڑے تبرک ہیں جن سے دنیا، قبر و آخرت کی مشکلات حل ہوتی ہیں قرآن شریف میں ہے کہ یوسف علیہ السَّلام کی قمیض کی برکت سے یعقوب علیہ السَّلام کی آنکھیں روشن ہوگئیں احادیث میں ثابت ہے کہ حضرت امیر معاویہ، عمرو بن عاص و دیگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے حضورصلَّی اللہ علیہ و سلَّم کے ناخن، بال و تہبند شریف اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کے لیے محفوظ رکھے دوسرے یہ کہ بزرگوں کے تبرکات اور قرآنی آیت یا دعا کسی کپڑے یا کاغذ پر لکھ کر میت کے ساتھ قبر میں دفن کرنا جائز بلکہ سنت ہے۔ (مراۃ المناجیح، 2 / 446)

امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت وصیت میں فرمایا:

انی صحبت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم فخرج لحاجۃ فاتبعتہ باداوۃ فکسانی احد ثوبیہ الذی یلی جسدہ فخبأتہ لھذا الیوم، و اخذ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم من اظفارہ و شعرہٖ ذات یوم فاخذتہ، فخباتہ لہذا الیوم فاذا انامت فاجعل ذلک القمیص دون کفنی ممایلی جسدی و خذ ذلک الشعر و الاظفار فاجعلہ فی فمی وعلی عینی ومواضع السجود منی

یعنی میں صحبتِ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم سے شرف یاب ہوا ایک دن حضور اقدس صلَّی اللہ و سلامہ علیہ حاجت کے لئےباہر تشریف لے گئے اور میں پانی کا برتن ساتھ لئے پیچھے چل پڑا، حضور پُرنورصلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے اپنے جوڑے سے کُرتا کہ بدنِ اقدس سے متصل تھا مجھے انعام فرمایا، وہ کُرتا میں نے آج کے لئے چھپا رکھا تھا۔ اور ایک روز حضورِ انورصلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے ناخن و موئے مبارک تراشے وہ میں نے لے کر اس دن کے لئے اٹھا رکھے، جب میں مرجاؤں تو قمیص سراپا تقدیس کو میرے کفن کے نیچے بدن کے متصل رکھنا، و موئے مبارک و ناخن ہائے مقدسہ کو میرے منہ اور آنکھوں اور پیشانی وغیرہ مواضع سجود پر رکھ دینا۔ (کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، 3 / 399)

ابن السکن نے بطریق صفوان بن ہبیرہ عن ابیہ روایت کی:

قال قال ثابت البنانی قال لی انس بن مالک رضی اﷲتعالٰی عنہ ھذہ شعرۃ من شعر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم فضعھا تحت لسانی، قال فوضعتھا تحت لسانہ فدفن و ھی تحت لسانہ ذکرہ فی الاصابۃ

یعنی ثابت بنانی فرماتے ہیں مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ موئے مبارک سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم کا ہے، اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا، ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں نے اس موئے مبارک کو ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا، وہ یوں ہی دفن کئے گئے کہ مُوئے مبارک اُن کی زبان کے نیچے تھا، اسے اصابہ میں ذکر کیا گیا۔ (اصابہ فی تمیز الصحابہ، 1 / 72)

(2) اور عہد نامہ وغیرہ قبر میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے میت کے منہ کے سامنے قبلہ کی جانب دیوار میں جگہ بنا کر اس میں رکھیں البتہ سینہ کے اوپر کفن کے نیچے رکھنا بھی جائز ہے۔ اوردیگر تبرکات کا بھی یہی طریقہ ہونا چاہئے نیز جب کفن پر کچھ لکھنا ہو تو بہتر یہ ہے کہ روشنائی سے نہ لکھا جائے بلکہ شہادت کی انگلی سے لکھا جائے۔

صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمیعلیہ الرّحمہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: ’’شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میّت کے مونھ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں، بلکہ در مختار میں کفن پر عہد نامہ لکھنے کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ اس سے مغفرت کی امید ہے اور میّت کے سینہ اور پیشانی پر

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

لکھنا جائز ہے۔ ایک شخص نے اس کی وصیّت کی تھی، انتقال کے بعد سینہ اور پیشانی پر بِسْمِ اللّٰہ شریف لکھ دی گئی پھر کسی نے انھيں خواب میں دیکھا، حال پوچھا؟ کہا: جب میں قبر میں رکھا گیا، عذاب کے فرشتے آئے، فرشتوں نے جب پیشانی پر بِسْمِ اللّٰہ شریف دیکھی کہا تو عذاب سے بچ گیا۔ (درمختار، غنیہ، عن التاتار خانیہ) یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پیشانی پر بِسْمِ اللّٰہ شریف لکھیں اور سینہ پر کلمہ طیبہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلَّم مگر نہلانے کے بعد کفن پہنانے سے پیشتر کلمہ کی انگلی سے لکھیں روشنائی سے نہ لکھیں۔‘‘ (بہار شریعت، 1 / 848)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی فضیل رضا عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ محرم الحرام 1442ھ