
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا یہ بات درست ہے کہ جس شخص نے اپنے والدین میں سے کسی کو قتل کیا تو اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ہر مسلمان اگرچہ گناہگار فاسق ہو اس کی نمازجنازہ فرضِ کفایہ ہے ہاں بعض شدید جرائم و گناہ کے مرتکب ایسے بھی ہیں جن کی نمازِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی، والدین کا قاتل بھی ایسے محروم افراد میں داخل ہے۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہرمسلمان کی نمازپڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا ہی گنہگار و مرتکبِ کبائر ہو مگر چند قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی نمازنہیں۔ (1) باغی جوامامِ برحق پرناحق خروج کرے اور اسی بغاوت میں مارا جائے۔ (2) ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا نہ ان کوغسل دیا جائے نہ ان کی نماز پڑھی جائے، مگر جبکہ بادشاہِ اسلام نے ان پرقابو پایا اور قتل کیا تو نماز و غسل ہے یا وہ نہ پکڑے گئے نہ مارے گئے بلکہ ویسے ہی مرے تو بھی غسل و نماز ہے۔ (3) جو لوگ ناحق پاسداری سے لڑیں بلکہ جو ان کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور پتھر آکر لگا اور مرگئے توان کی بھی نمازنہیں، ہاں ان کے متفرق ہونے کے بعد مرے تو نماز ہے۔ (4) جس نے کئی شخص کھلاگھونٹ کر مار ڈالے۔ (5) شہر میں رات کو ہتھیار لے کر لوٹ کریں وہ بھی ڈاکو ہیں، اس حالت میں مارے جائیں توا ن کی بھی نماز نہ پڑھی جائے۔ (6) جس نے اپنی ماں یا باپ کومارڈالا، اس کی بھی نماز نہیں۔ (7) جوکسی کا مال چھین رہا تھا اور اس حالت میں مارا گیا، اس کی بھی نماز نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 827، مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2112
تاریخ اجراء: 03 رجب المرجب 1446 ھ / 04 جنوری 2025ء