
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
بیعت صرف مرد حضرات ہی ہو سکتے ہیں یا عورتیں بھی بیعت ہو سکتی ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مردوں کی طرح عورتیں بھی بیعت ہو سکتی ہیں۔ احادیث طیبہ سے ثابت ہے کہ صحابیات (رضوان اللہ علیہم اجمعین) بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کرتی تھیں، جس کی تفصیل قرآن پاک اورکتب احادیث میں موجود ہے۔ البتہ یہ ضرور ذہن نشین ہونا چاہئے کہ جس بھی پیر سے بیعت کی جائے، اس پیرمیں درج ذیل چار شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
(۱)صحیح العقیده سنی ہو۔ (۲) عقائد اہلسنت سے پورا واقف، کفر و اسلام و گمراہی و ہدایت کے فرق کا خوب جاننے والا ہو۔ اور علم فقہ اپنی ضرورت کے مطابق جانتا ہو اور جن مسائل کی ضرورت پیش آئے، وہ مسائل کتابوں سے خود نکال سکتا ہو۔ (۳) اس کا سلسلہ باتصالِ صحیح سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہو۔ (۴) فاسق معلن نہ ہو۔
جس شخص میں بیان کی گئیں چاروں شرطیں پائی جائیں، وہی جامع شرائط پیر اور حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا نائب ہے اور ایسے ہی سے بیعت کی جاسکتی ہے اور جس میں مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں یا ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہو، تو وہ پیر بننے کا اہل ہی نہیں، بلکہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا، ناجائز و گناہ ہے اور اگر کسی نے ایسے شخص کی بیعت کر لی ہو، تو اس کو ختم کرنا لازم ہے۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-377
تاریخ اجراء: 25 جُمادَی الاُولیٰ 1443ھ / 30 دسمبر 2021ء