
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
رمضان میں کچھ لوگ راشن مانگتے ہیں، تو ایسی صورت میں ان کو راشن دے سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جس شخص کے پاس اپنی ضروریاتِ شرعیہ کو پورا کرنے کی مقدار مال ہے یعنی ایک دن کاکھانا اور بدن چھپانے کے لیے کپڑا موجود ہے یا ضروریاتِ شرعیہ کی مقدار مال کمانےکی طاقت رکھتا ہے تو اسے اپنی ذات کے لئے سوال کرنا حرام ہے۔ اسی طرح اگر دینے والے کو معلوم ہو کہ اس کے پاس بقدر ضروریاتِ شرعیہ مال ہے اس کے باوجود اپنی ذات کے لئے سوال کررہا ہے تو اسے دینا بھی حرام ہے۔
خیال رہے کہ جو سفید پوش افراد مستحق ہوتے ہیں اور خود مانگتے بھی نہیں ہیں، ایسے افراد کو تلاش کرکے ان کی ضرور مدد کرنی چاہئے اور ان کی عزتِ نفس کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ البتہ صدقاتِ واجبہ (زکوٰۃ ، فطرہ یا فدیہ اور کفارے کی رقم) تقسیم کرتے ہوئے شرعی طریقہ کار کے مطابق اور مستحقِ زکوٰۃ افراد کو تلاش کرکے ادائیگی کرنا لازم ہے۔
پیشہ ور بھکاریوں کو دینے کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”بے ضرورتِ شرعی سوال کرنا حرام ہےاور جن لوگوں نے باوجودِ قدرتِ کسب(یعنی کمانے پر قادر ہونے کے باوجود) بلاضرورت سوال کرنا اپناپیشہ کرلیا ،وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں، سب ناپاک وخبیث ہےاور ان کا یہ حال جان کر اس کے سوال پر کچھ دینا داخل ثواب نہیں، بلکہ ناجائز وگناہ اور گناہ میں مدد کرنا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ303، مطبوعہ رضا فاؤ نڈیشن، لاھور)
مستحق شخص کے سوال کرنے اور اسے دینے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”وہ عاجز، نا تواں کہ نہ مال رکھتے ہیں، نہ کسب پر قدرت یا جتنے کی حاجت ہے، اتنا کمانے پر قادر نہیں، انہیں بقدرِ حاجت سوال حلال اور اس سے جو کچھ ملے، ان کے لیے طیّب اور یہ عمدہ مصارفِ زکوٰۃ سے ہیں اور انہیں دینا باعثِ اجرِ عظیم، یہی ہیں وُہ، جنہیں جِھڑکنا حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ254، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: Web-2228
تاریخ اجراء: 27شعبان المعظم1446ھ/26فروری2025ء