
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتےہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ سوشل میڈیا پر بعض حنفی علماء سے یہ مسئلہ سنا کہ گھوڑے کا گوشت کھانا، جائز و حلال ہے اور ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے گھوڑے کا گوشت کھایا ہے، لہٰذا گھوڑا حلال ہے نیز گھوڑے کے گوشت کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس وجہ سے مکروہ تحریمی قرار دیا کہ یہ آلۂ جہاد ہے اور اسے کھانے سے آلۂ جہاد میں کمی آئے گی، جبکہ آج کے دور میں جدید اسلحے سے جنگیں ہوتی ہیں، اب گھوڑا آلۂ جہاد نہیں رہا، تو موجودہ دور میں گھوڑے کا گوشت کھانے میں آلۂ جہاد کی تقلیل والی علت نہیں پائی جاتی، لہٰذا فی زمانہ اسے کھانے کی اجازت ہو گی۔ اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ حکمِ شرعی بیان کر دیجئے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
گھوڑے کے گوشت کے بارے فقہاء کا اختلاف ہے، راجح اور محتاط قول یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا، ناجائز و مکروہ تحریمی (قریب بہ حرام) ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے اور اس پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةًؕ- وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت ہے اور (ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گاجو تم جانتے نہیں۔ (پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 8)
تفسیر بغوی میں ہے:
و احتج بھذہ الآیۃ من حرم لحوم الخیل
ترجمہ: جو گھوڑے کے گوشت کو حرام قرار دیتے ہیں، انہوں نے اس آیت سے دلیل پکڑی۔ (تفسیر بغوی، تحت ھذہ الآیۃ، ج 3، ص 72، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کے تحت فقہائے احناف کی استدلال کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و للجمهور الكتاب قوله سبحانه وتعالى:﴿ وَ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَ زِينَةً﴾خرجت مخرج الامتنان و قد من الله سبحانه و تعالى بمنفعة الركوب و الزينة و لو كان الأكل من هذه الأشياء حلالا لمن بذلك أيضا لأن منفعة الأكل أكثر من منفعة الركوب و الزينة لأن الإنسان يحيى بلا ركوب و زينة، و لا يحيى بلا أكل
ترجمہ: جمہور کی دلیل قرآن کریم میں موجود اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَ زِينَةً﴾
یعنی اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت ہے۔ اس آیت میں احسان جتلانے کے طور پر اس کا ذکرکیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سوار ہونے اور زینت کی منفعت دینے کے ساتھ تم پر احسان فرمایا اور اگران چیزوں میں سے کھانا حلال ہوتا، تو اس پر بھی احسان جتلایا جاتا، کیونکہ سوار ہونے اور زینت سے زیادہ کھانے کی منفعت ہوتی ہے، کیونکہ انسان سوار ہوئے بغیر اور زینت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے اور کھانے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، ج 11، ص 590، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اس آیت مبارکہ سے گھوڑے کے گوشت کی ممانعت صرف امام اعظم علیہ الرحمۃ نے نہ سمجھی، بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اس آیت سے گھوڑے کے گوشت کی ممانعت پر استدلال فرمایا۔ چنانچہ تفسیر قرطبی میں ہے :
سئل ابن عباس عن لحوم الخیل فکرھھا و تلا ھذہ الآیۃ و قال ھذہ للرکوب و قراالآیۃ التی قبلھا﴿وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ- لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ﴾ثم قال: ھذہ للاکل
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے گھوڑے کے گوشت کے بارے میں پوچھاگیا، تو آپ نے اسے مکروہ قرار دیا اور یہ آیت تلاوت کرکے فرمایا: یہ سواری کے لیے ہیں اور جو اس سے پچھلی آیت ہے
﴿وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَاۚ- لَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ﴾
وہ تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا: یہ کھانے کے لیے ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج 10، ص 76، دار الکتب المصریۃ، قاھرۃ)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہی:
نھی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ و سلم عن لحوم الخیل و البغال و الحمیر
ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے گھوڑے،خچر اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ، ج 4، ص 359، رقم الحدیث: 3198، دار الرسالۃ العالمیۃ، دمشق)
شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارک کی سند کی تصحیح کی ہے۔ چنانچہ عمد ۃ القاری میں ہے:
سند حدیث خالد جيد، و لھذا لما اخرجہ ابو داؤد و سکت عنہ فھوحسن عندہ و قال النسائی : اخبرنا اسحاق بن ابراھیم اخبرنی بقیۃ حدثنی ثور بن یزید عن صالح۔۔۔ فذکرہ بسندہ و قد صرح فیہ بقیۃ بالتحدیث عن ثور و ثور حمصی اخرج لہ البخاری و غیرہ و بقیۃ اذا صرح بالتحدیث کان السند حجۃ
ترجمہ: حدیث خالد جید ہے، اسی لیے امام ابو داؤد علیہ الرحمۃ نے اس نقل کیا اور اس کے متعلق سکوت اختیار کیا، تو یہ ان کے نزدیک حسن (ہونے کی دلیل) ہے اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ثور بن یزیدنے صالح سے حدیث بیان کی۔۔۔۔ پس آپ علیہ الرحمۃ نے اپنی سند ذکر کی ار اس میں بقیہ کی ثور سے حدیث بیان کرنے کی صراحت ذکر کی اور ثور حمصی وہ ہیں کہ جن سے امام بخاری اوردیگر محدثین روایت لیتے ہیں اوربقیہ جب تحدیث کی صراحت کر دیں، تو ان کی سند حجت ہوتی ہے۔ (عمدۃ القاری، ج 17، ص 248، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
محدث کبیر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قول النسائی حدیث الاباحۃ اصح صریح فی ان حدیث التحریم صحیح و اذا ثبت انہ صحیح عند المجتھدین فلا یلتفت الی قول احد من المتاخرین
ترجمہ: امام نسائی علیہ الرحمۃ کا قول کہ گھوڑے کی اباحت کی حدیث زیادہ صحیح ہے، یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ گھوڑے کے گوشت کو حرام ثابت کرنے والی حدیث صحیح ہے اور جب ثابت ہو گیا کہ یہ حدیث مجتہدین کے نزدیک صحیح ہے، تو، متاخرین میں سے کسی کے قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔(مرقاۃ المفاتیح، ج 7، ص 2663،دار الفکر، بیروت)
فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب ”الہدایہ“ میں ہے:
ولأبي حنيفة قوله تعالى: ﴿وَ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَ زِينَةً﴾ خرج مخرج الامتنان والأكل من أعلى منافعها والحكم لا يترك الامتنان بأعلى النعم و يمتن بأدناها، و لأنه آلة إرهاب العدو فيكره أكله احتراما له و لهذا يضرب له بسهم في الغنيمة، و لأن في إباحته تقليل آلة الجهاد
ترجمہ: امام اعظیم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے
﴿ وَ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَ زِينَةً﴾
یعنی اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تا کہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لئے زینت ہے۔ اس آیت میں احسان جتلانے کے طور پر اس کا ذکرکیا گیا اور کھانا اس کے اعلیٰ منافع میں سے ہے اور حکیم کی شایان شان نہیں کہ وہ اعلیٰ نعمت کے ساتھ احسان جتلانے کو ترک کرے اور ادنیٰ کے ساتھ احسان جتلائے اور گھوڑے کا گوشت ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دشمن کو بھگانے کا آلہ ہے، تو اس کا کھانا اس کے احترام کی وجہ سے مکروہ ہے، اسی وجہ سے غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہوتا ہے اوریہ اس وجہ سے مکروہ ہے کہ اس کے مباح قرار دینے میں آلۂ جہادکی تقلیل (کمی واقع ہونے کا پہلو) ہے۔ (الھدایۃ، ج 4، ص 352، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
و أما لحم الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه: يكره و قال أبو يوسف و محمد رحمهما الله: لايكره و به أخذ الشافعي رحمه الله
ترجمہ: بہرحال گھوڑے کا گوشت تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مکروہ ہے۔ اور امام ابو یوسف و محمد علیہما الرحمہ نے فرمایا کہ مکروہ نہیں۔ اسی کو امام شافعی نے لیا۔ (بدائع الصنائع، ج 5، ص38، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
ردالمحتار میں ہے:
و یکرہ اکل لحم الفرس عند ابی الحنیفہ و المکروہ تحریما یطلق علیہ عدم الحل
ترجمہ: گھوڑے کا گوشت کھانا امام اعظم کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اس پر عدم حل کا اطلاق کیا گیا ہے۔ (ردالمحتار، ج 9، ص 442، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
فتاوى عالمگیری میں ہے:
يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، و اختلف المشايخ في تفسير الكراهة، و الصحيح أنه أراد بها التحريم، و لبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. و قال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط
ترجمہ: گھوڑے کا گوشت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق مکروہ ہے ، برخلاف صاحبین علیہم الرحمۃ کےاور کراہت کی تفسیر میں مشائخ کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ کراہت سے مراد کراہتِ تحریمی ہے۔ اور اس کا دودھ اس کے گوشت کی طرح ہے، اسی طرح قاضی خان میں ہے۔ اور شیخ امام سرخسی نے فرمایا جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہ زیادہ محتاط ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج 5، ص 290، دارالفکر، بیروت)
امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”امام اعظم کے مذہب میں گھوڑا مکروہ تحریمی ہے قریب بحرام۔“ (فتاوی رضویہ، ج 20، ص 312، رضا فاونڈیشن، لاھور)
مزید ایک جگہ ارشادفرمایا: ”صاحبین کے نزدیک حلال ہے اور امام مکروہ فرماتے ہیں قول امام پر فتوی ہوا کہ کراہت تنزیہی ہے یا تحریمی اور اصح و راجح کراہت تحریمی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 20، ص 310، مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاھور)
بہار شریعت میں ہے: ”گھوڑے کے متعلق روایتیں مختلف ہیں: یہ آلہ جہاد ہے، اس کے کھانے میں تقلیل آلہ جہاد ہوتی ہے ، لہذا نہ کھایا جائے۔“ (بھار شریعت، ج 3، حصہ 15، ص 326، مکتبہ المدینہ، کراچی)
(۱) اگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین علیہما الرحمۃ کا کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے، تو جب تک ضرورت وغیرہ کوئی سببِ عدول نہ پایا جائے، تب تک امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول سے عدول کرنے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ مجمع الانہر میں ہے:
ان الصحیح المفتی بہ قول صاحب المذھب لا قول صاحبیہ و استفید منہ انہ لا یفتی ولا یعمل الا بقول الامام و لا یعدل عنہ الی قولھما الا لموجب من ضعف او ضرورۃ تعامل و استفید منہ ایضا ان بعض المشائخ و ان قال الفتوی علی قولھما و کان دلیل الامام واضحا و مذھبہ ثابتا لا یلتفت الی فتواہ
ترجمہ: بے شک صحیح مفتیٰ بہ صاحبِ مذہب امام اعظم علیہ الرحمۃ کا قول ہے، نہ کہ صاحبین علیہما الرحمۃ کا قول اور اس سے مستفاد ہوا کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے قول پر ہی فتوی دیا جائے گا اور اسی پہ عمل کیا جائے گا اور آپ علیہ الرحمۃ کے قول سے صاحبین علیہما الرحمۃ کے قول کی طرف عدول نہیں کیا جائے گا، مگر کسی موجب یعنی ضعفِ دلیل ، ضرورتِ تعامل کی وجہ سے اور اس سے یہ بھی مستفاد ہوا کہ بعض مشائخ اگرچہ صاحبین علیہما الرحمۃ کے قول پر فتوی دے دیں، حالانکہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کی دلیل واضح اور مذہب ثابت ہو، تو اُن کے فتوے کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ (مجمع الانھر، ج 1، ص 70، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
(۲) گھوڑے کی حرمت اور حلت کے دلائل متعارض ہیں اور شرعی اصول ہے کہ اگر حلال و حرام کے دلائل متعارض ہوں، تو حرمت کو ترجیح دی جائے گی ، لہٰذا گھوڑے کی حرمت کا قول ہی راجح ہو گی۔ الاشباہ و النظائرمیں ہے:
ما اجتمع محرم و مبیح الا غلب المحرم
ترجمہ: حرام اور حلال دونوں قسم کے دلائل جمع ہوجائیں، تو حرمت کے دلائل راجح ہوں گے۔ (الاشباہ و النظائر، ص 93، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
علامہ ابو بکر کاسانی علیہ الرحمۃگھوڑے کی حرمت پر دلائل ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یترجح الحاظر علی المبیح احتیاطا
ترجمہ: ممانعت کے دلائل کو اباحت کے دلائل پر احتیاطاً ترجیح ہوتی ہے۔ (بدائع الصنائع، ج 5، ص 39، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
سوال میں گھوڑے کی حرمت کے قول پر دو اشکالات بیان کئے گئے، ذیل میں اشکالات مع جوابات درج کئے جا رہے ہیں:
اشکال: صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دورِ مبارک میں گھوڑے کاگوشت کھایا ہے جیساکہ بخاری شریف میں اس کا ذکرموجود ہے، یہ واضح ثبوت ہے کہ گھوڑا حلال ہے، تو اس صراحت کے باوجود گھوڑے کو کیسے ناجائز کہا جاسکتا ہے؟
الجواب: بے شک بخاری وغیرہ کتبِ حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے گھوڑے کا گوشت کھایا ہے، لیکن علمائے کرام نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں مثلاً صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ا س عمل کو نہی (ممانعت) سے پہلے کے عمل پر محمول کیا جائے گا کہ ابتداءً گھوڑے کی حلت کا حکم تھا، لیکن بعد میں منسوخ کردیا گیا۔ اگر ممانعت والی روایت کے بعدصحابہ کرام سے گھوڑا کھانے کا ثبوت ہوجائے، تو اس کے دو جوابات ہیں:
(۱) اس وقت تک ان صحابہ کرام علیہم الرضوان تک نہی (ممانعت) والا حکم نہ پہنچا تھا۔
(۲) یا انہیں حکمِ ممانعت کا تو علم تھا، لیکن انہوں نے ضرورتاً گھوڑے کاگوشت کھایا اور اصول ہے کہ جس چیز کا جواز ضرورتاً ثابت ہو، اس کاجواز ضرورت کی حد تک ہی رہتا ہے۔
محدثِ کبیر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فکان اکلھم لحم الخیل اما مقدم فھو منسوخ و امامؤخر فیحمل علی انہ ما بلغھم الحدیث
ترجمہ: صحابہ کرام علیہم الرضوان کا گھوڑےکا گوشت کھانا یا تو ممانعت سے پہلے کا عمل ہو گا، تو وہ منسوخ ہو گا یا ممانعت کے بعد کا عمل ہو گا، تو اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ اُس وقت تک صحابہ کرام علیہم الرضوان تک ممانعت والی حدیث نہ پہنچی تھی۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج 7، ص 2674، دار الفکر، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یاکلون لحوم الخیل فی مغازیھم فھذا یدل علی انھم کان یاکلونھا فی حال الضرورۃ کما قال الزھری
ترجمہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم غزوات میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے، یہ اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حالتِ ضرورت میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے جیسا کہ امام زہری علیہ الرحمۃ نے فرمایا۔ (بدائع الصنائع، ج 5، ص 39، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
الاشباہ و النظائر میں ہے:
ما ابیح للضرورۃ یقدر بقدرھا
ترجمہ:جو کام ضرورت کی وجہ سے مباح(جائز)قرار دیا گیا ہو، تو وہ ضرورت تک ہی محدود رہتا ہے۔ (الاشباہ و النظائر، ص 87، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اشکال: گھوڑے کے گوشت کو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس وجہ سے مکروہ تحریمی قرار دیاکہ یہ آلۂ جہاد ہے اور اسے کھانے سے آلۂ جہاد میں کمی آئے گی، جبکہ آج کے دور میں جدید اسلحے سے جنگیں ہوتی ہیں، اب گھوڑا آلۂ جہاد نہیں رہا، تو موجودہ دور میں گھوڑے کا گوشت کھانے میں آلۂ جہادکی تقلیل والی علت نہیں پائی جاتی، لہٰذا فی زمانہ اسے کھانے کی اجازت ہو گی۔
الجواب: اولا یہ مفروضہ قابلِ تسلیم نہیں کہ جدید اسلحے کی وجہ سے اب گھوڑاآلۂ جہاد نہیں۔ اس لیے کہ جدید اسلحے کے باوجود آج بھی جنگ کے دوران اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے دشوارگزار راستوں سے ہوتے ہوئے مختلف اہم مقامات تک پہنچنے میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہر ملک کی افواج کے گھڑ سوار دستے بھی ہوتے ہیں اورفوجیوں کو باقاعدہ گھڑ سواری کی خصوصی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
ثانیاًامام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی دلیل فقط ”آلۂ جہاد کی تقلیل“ نہیں، بلکہ آپ علیہ الرحمہ کے موقف پر قرآن و سنت کے دیگر دلائل بھی موجود ہیں، لہٰذ ااگر کسی دور میں واقعتاً گھوڑے کاآلۂ جہاد ہونا بالکلیہ متروک بھی ہو جائے، تب بھی گھوڑے کی حلت ثابت نہیں ہو گی، بلکہ دیگر دلائل کی روشنی میں اس کی حرمت کا حکم باقی رہے گا جیسا کہ اوپر تفصیل سے سارے دلائل درج کئے جا چکے ہیں۔
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7605
تاریخ اجراء: 04 محرم الحرام 1447ھ / 30 جون 2025ء