27 رجب کا روزہ کہاں سے ثابت ہے؟

رجب کی 27 تاریخ کو روزہ رکھنے کا ثبوت

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3568

تاریخ اجراء:16شعبان المعظم1446ھ/15فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   رجب کی 27 تاریخ کو روزہ رکھنا کس حدیث سے ثابت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ستائیس رجب کاروزہ رکھنادرج ذیل طریقوں سے ثابت:

   (1)صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماہمیشہ روزہ داررہتے تھے، جس وجہ سے پورے رجب کے  بھی روزے رکھتے تھے، ان کے حوالے سے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہاتک غلط افواہ پہنچی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ پورے رجب کے روزے رکھنے کوحرام کہتے ہیں، آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے ان کے پاس کسی کوبھیج کر پوچھا تو انہوں نے جواب دیاکہ جوخودہمیشہ روزے رکھتاہے تو وہ سارے رجب کے روزوں کوکیسے حرام کہہ سکتاہے۔ پس جب پورے رجب کے روزے رکھناثابت ہے تواس میں ستائیس رجب بھی شامل ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے "أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر، فقالت: بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة:۔۔۔ وصوم رجب كله، فقال لي عبد الله: أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد؟ "ترجمہ: (راوی کہتے ہیں:) مجھے حضرت اسماء نے حضرت عبداللہ بن عمرکے پاس بھیجاانہوں نے کہا:مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ تین چیزوں کوحرام قراردیتے ہیں، جن میں سے ایک سارے رجب کے روزے ہیں، اس پرحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے فرمایا: جہاں تک رجب کےروزوں کی بات ہے توجوہمیشہ روزے رکھتاہووہ کیسے سارے رجب کے روزے حرام کہہ سکتاہے؟۔(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، ج 03، ص 1641، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   (2) شعب الایمان میں  حضرت  سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "في رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم، وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة، وقام مائة سنة وهو ثلاث بقين من رجب۔۔۔ وروي ذلك بإسناد آخر أضعف من هذا"یعنی: رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات قیام ( عبادت)  کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے،  سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رَجب کی ستائیس تاریخ ہے۔ یہ حدیث دوسری  اسناد کے  ساتھ بھی مروی ہے  جو اس سند سے زیادہ ضعیف ہیں۔(شعب الایمان، جلد 5، صفحہ 345، حدیث نمبر 3530، مکتبۃ الرشد، ہند)

   اگر  یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے تو یاد رہے  کہ:

                                                                                طاولا:یہ روایت کئی اسانیدسے مروی ہے ،جیساکہ شعب الایمان کی اوپرذکرکردہ عبارت کے آخرمیں موجود ہے، اور مختلف سندیں مل کرروایت کوتقویت دیتی ہیں ۔ حضرت علامہ مولاناملاعلی قاری علیہ الرحمۃ الادب فی رجب میں فرماتے ہیں: ’’وقدجاء فی فضائل صومہ احادیث ضعیفۃ تصیر بکثرۃ طرقھاقویۃ مع ان الاحادیث الضعیفۃ الاحوال معتبرۃ فی فضائل الاعمال‘‘ ترجمہ: اورتحقیق رجب کے فضائل کے بارے میں احادیث ضعیفہ واردہیں، کثرت طرق کی وجہ سے وہ قوی ہوگئی ہیں باوجودیکہ احادیث ضعیفہ فضائل اعمال میں معتبر ہیں۔(الادب فی رجب، صفحہ 30، المکتب الاسلامی، دار عمار، بیروت)

   ثانیا: محدثین کرام نے صراحت فرمائی ہے کہ فضائل  کے باب میں  ضعیف حدیث معتبر ہے۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے"وهویعمل بہ فی فضائل الاعمال اتفاقا" ترجمہ: اور بالاتفاق ضعیف حدیث پر فضائل اعمال میں عمل کیاجائے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 2، صفحہ806، دار الفکر، بیروت)

   اسی کتاب کےایک دوسرے مقام پر ہے: ’’اجمعواعلی جوازالعمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال‘‘ ترجمہ: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جوازپر علمائےکرام کااجماع ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 895، دار الفکر، بیروت)

   شرح مسندابی حنیفہ میں ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ضعیف حدیث پرعمل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’باسنادضعیف لکنہ قوی حیث یعمل بہ فی فضائل الاعمال‘‘ ترجمہ: اسنادضعیفہ کے ساتھ مروی ہے، لیکن اس کے باوجودقوی ہے کہ اس پرفضائل اعمال میں عمل کیاجارہاہے۔(شرح مسندابی حنیفہ، جلد 1، صفحہ 26، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشادفرماتے ہیں :’’اور فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف باجماعِ ائمہ مقبول ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 649، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   (3)رجب المرجب کے روزوں کے متعلق صحیح حدیث بھی مو جود ہے،  جس سےمطلقا رجب کے روزوں  کاثبوت ہوتاہے، اورمطلق میں 27رجب بھی شامل ہے۔ صحیح مسلم شریف، مصنف ابن ابی شیبہ، جلد2، صفحہ344،حدیث نمبر9748،امالی ابن بشران،جلد1،صفحہ253،میں شرط مسلم پر سند صحیح کے ساتھ حدیث پاک مروی ہے، و اللفظ للاول:’’عثمان بن حکیم الانصاری،قال:سالت سعیدبن جبیرعن صوم رجب ونحن یومئذ فی رجب فقال: سمعت ابن عباس رضی اللہ عنھما، یقول: ’’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول: لا یفطر، و یفطر حتی نقول: ’’لا یصوم‘‘ ترجمہ: عثمان بن حکیم الانصاری فرماتے ہیں، میں نے سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے رجب کے روزے کے بارے میں سوال کیا اور اس وقت رجب کا مہینا تھا، تو انہوں نے فرمایا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہماکوفرماتے سنا:فرمارہے تھے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے رکھتے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ افطارنہیں کریں گے اورافطار کرتے، یہاں تک کہ ہم کہتے :روزہ نہیں رکھیں گے۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام، جلد 2، صفحہ 811، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

   (4): رجب المرجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے اورحرمت والے مہینوں میں روزہ رکھنے کی ترغیب حدیث پاک میں موجود ہے اور 27رجب بھی اس کے عموم میں شامل ہے۔

   علامہ نووی علیہ الرحمۃ شرح مسلم میں تحریرفرماتے ہیں :"وفي سنن أبي داود أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ندب إلى الصوم من الأشهر الحرم ورجب أحدها" ترجمہ: اورسنن ابوداودمیں ہے کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حرمت والے مہینوں کاروزہ رکھنے کومستحب قراردیاہے اوررجب حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔(المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج08، ص 39، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   (5):یہ نفلی روزے ہیں اور نفلی روزں کے فضائل احادیث میں موجودہیں تووہ عمومی فضائل ان کوبھی شامل ہیں۔

   مسند ابی یعلی میں ہے ”عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أن رجلا صام يوما تطوعا، ثم أعطي ملء الأرض ذهبا لم يستوف ثوابه دون يوم الحساب“ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔(مسند ابی یعلی،رقم الحدیث 6130، ج 10، ص 512،دار المأمون، دمشق)

   (6): جب تک شریعت مطہرہ میں کسی بھی کام سے ممانعت وارد نہ ہو اس کام کا کرنا جائز ہوتا ہے، صدہا مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں کوئی حدیث موجود نہیں لیکن ان کا کرنا جائز ہے، اور رجب المرجب کے روزں کے فضائل میں تو احادیث موجود ہیں۔

   قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ۚ             وَ اِنْ تَسْـََٔلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ؕ          عَفَا اللہُ عَنْہَاترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں توتمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھوگے کہ قرآن اُتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے۔(پارہ 7، سورۃ المائدہ، آیت 101)

   صدر الافاضل حضرت علّامہ مولانا سیّد محمد نعیمُ الدّین مرادآبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس اَمر کی شَرع میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حلال وہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا، حرام وہ ہے جس کو اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا وہ معاف ہے تو کلفت میں نہ پڑو۔‘‘(خزائن العرفان، ص 239، مکتبۃ المدینہ)

   حدیثِ پاک میں ہے: ’’الحلال ما احل اللہ فی کتابہ والحرام ما حرم اللہ فی کتابہ و ما سکت عنہ فھو مما عفیٰ عنہ‘‘ ترجمہ:  حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جس پر خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔(ترمذی، جلد 4، صفحہ 220، حدیث: 1726، الناشر: مصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم