مجیب:مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1938
تاریخ اجراء:26ربیع الاوّل1446ھ/01اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک حدیث سنی تھی کہ ایک بیٹا نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرے والد نے میرا مال لے لیا، تو آخر میں نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے، یہ پورا واقعہ کس طرح ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
معجم الصغیر للطبرانی میں حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ایک شخص بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: ”يا رسول الله إن أبي أخذ مالي فقال النبي صلى الله عليه و سلم للرجل اذهب فأتني بأبيك فنزل جبريل عليه السلام على النبي صلى الله عليه و سلم فقال إن الله يقرئك السلام ويقول إذا جاءك الشيخ فسله عن شيء قاله في نفسه ما سمعته أذناه فلما جاء الشيخ قال له النبي صلى الله عليه و سلم ما بال ابنك يشكوك أتريد أن تأخذ ماله فقال سله يا رسول الله هل أنفقته إلا على عماته أو خالاته أو على نفسي فقال النبي صلى الله عليه و سلم ايه دعنا من هذا أخبرنا عن شيء قلته في نفسك ما سمعته أذناك فقال الشيخ والله يا رسول الله ما يزال الله يزيدنا بك يقينا لقد قلت في نفسي شيئا ما سمعته أذناي فقال قل وأنا أسمع قال قلت:
غَذَوْتُکَ مَوْلُوْدًا وَمُنْتُکَ یَافِعًا تُعِلَّ بِمَا اَجْنِیْ عَلَیْکَ وَتَنْھَلُ
اِذَا لَیْلَۃٌ ضَاقَتْکَ بِالسَّقَمِ لَمْ اَبِتُّ لِسَقَمِکَ اِلَّا سَاھِرًا اَتَمَلْمَلُ
کَاَنِّی اَنَا الْمَطْرُوْقُ دَوْنَکَ بِالَّذِیْ طُرِقْتَ بِہٖ دُوْنِیْ فَعَیْنَیَّ تَھْمِلُ
تَخَافُ الرَّدٰی نَفْسِیْ عَلَیْکَ وَاِنَّھَا لَتَعْلَمُ اَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ
فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَایَۃَ الَّتِیْ اِلَیْھَا مَدٰی مَا فِیْکَ کُنْتُ اُؤَمِّلُ
جَعَلْتَ جَزَآئِیْ غِلْظَۃً وَفَظَاظَۃً کَاَنَّکَ اَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ
فَلَیْتَکَ اِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ اُ بُوَّتِیْ فَعَلْتَ کَمَا الْجَارُ الْمُجَاوِرَ یَفْعَلُ
تَرَاہٗ مُعِدًّا لِلْخِلَافِ کَاَنَّہٗ بِرَدٍّ عَلٰی اَھْلِ الصَّوَابِ مُؤَکَّلُ
قال فحينذ أخذ النبي صلى الله عليه و سلم بتلابيب ابنه وقال أنت ومالك لأبيك“
یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے، تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اپنے باپ کو لے کر آؤ۔ اتنے میں حضرت سیِّدُنا جبریل امین علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجا ہے اور ارشاد فرمایا ہے: جب وہ بوڑھا شخص آئے، تو اس بات کے متعلق اس سے دریافت فرمائیں جو اس نے اپنے دل میں کہی ہے، جسے اس کے کانوں نے بھی نہ سنا۔جب وہ شخص حاضر ہوا، توحضور نبی ٔ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: آپ کے بیٹے کا کیا معاملہ ہے؟ وہ شکایت کر رہا ہے کہ آپ اس کا مال لینا چاہتے ہیں؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اس سے پوچھئے کہ کیا میں نے وہ مال اس کی پھوپھیوں، خالاؤں اور اپنے آپ پر خرچ نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ٹھیک ہے(لیکن) مجھے وہ بتاؤ جو تم نے اپنے دل میں کہا اور تمہارے کانوں نے بھی نہ سنا۔ انہوں نے عرض کی:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ عَزَّوَجَلَّ یقیناً ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کا وافر حصہ عطا فرمائے گا، میں نے اپنے دل میں ایک ایسی بات کہی جو میرے کانوں نے بھی نہ سنی۔‘‘ ارشاد فرمایا:’’اب تم بولواور میں سنتا ہوں۔ ‘‘عرض کی:’’میں نے(اشعار میں )یہ کہاتھا:
(۱)…میں نے بچپن میں تیری پرورش کی اور جوانی تک تجھ پر احسان کیا، جو تیری خاطر کماتا تُواسی کے کھانے پینے میں لگاتار مشغول رہا۔
(۲)…جب رات نے بیماری میں تجھے کمزور کردیا تو میں تیری بیماری کی وجہ سے رات بھر بے قراری کی حالت میں بیدار رہا۔
(۳)…گویا تیری جگہ میں اس مرض کا شکار تھا جس نے تجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جس کے سبب میری آنکھیں تھمنے کانام نہ لیتی تھیں۔
(۴)…میرا دل تیری ہلاکت سے ڈر رہا تھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔
(۵)…جب تو بھر پورجوانی کی عمر کو پہنچا جس کی میں عرصۂ دراز سے تمنا کر رہا تھا۔
(۶)…تو تُو نے میرے احسان کا بدلہ انتہائی سختی کی صورت میں دیا گویا پھر بھی تو ہی احسان اور مہربانی کرنے والا ہے۔
(۷)…اور تو نے میرے باپ ہونے کا لحاظ تک نہ کیا بلکہ ایسا سلوک کیا جیسے پڑوسی پڑوسی کے ساتھ کرتا ہے۔
(۸)…آپ اسے(یعنی میرے بیٹے کو)ہر وقت میری مخالفت پرتیار پائیں گے گویا اسے اہلِ حق کا انکار کرنے پر ہی مقررکیا گیا ہو۔
حضرت سیِّدُنا جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :پس اسی وقت سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کا گریبان پکڑا اور اس سے ارشاد فرمایا:’’تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔“(المعجم الصغیر، جلد2،صفحہ 62 ۔63، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
حدیث پاک کے اس حصے ”تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے“ کی تشریح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یعنی تم بھی اپنے باپ کے ہو تمہارا مال بھی، لہٰذا تمہارے باپ کو حق ہے کہ تم سے جانی خدمت بھی لیں اور مالی خدمت بھی۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’اس فرمان عالی سے چند مسئلے معلوم ہوئے:غنی اولاد پر فقیر ماں باپ کا خرچہ واجب ہے اور اگر ماں باپ غنی ہوں انہیں اولاد کے مال کی ضرورت نہ ہو تو ہدایا دیتے رہنا مستحب ہے۔“(مرآۃ المناجیح، جلد5، صفحہ165، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
البتہ یہ بات یاد رہے کہ بیٹے کی زندگی میں باپ اس کے مال کا مالک نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس سے متعلق فرماتے ہیں:”باپ بیٹے کے مال کا اس کی زندگی میں ہرگز مالک نہیں۔ وقولہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم انت و مالک لابیک من باب البر۔اورحضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے، تو یہ بھلائی کے باب سے ہے(ت)۔ فتح القدیر کے باب الوطی الذی یوجب الحد میں ہے: لم تکن لہ ولایۃ تملک مال ابنہ حال قیام ابنہ۔ اس کو یہ ولایت نہیں ہے جو بیٹے کی زندگی میں اس کے مال کا باپ کو مالک بنا دے(ت)۔
نہ باپ کو بے رضا واجازتِ پسر اس کے مال سے ایک حبہ لینے کا اختیار۔ قال تعالیٰ:اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بغیر اس کے کہ تمہاری رضامندی سے تجارت ہو(ت)۔
مگر جبکہ باپ فقیر محتاج ہو او ربیٹا غنی، تو صرف بقدر نفقہ کے بلا اطلاعِ پسر بھی لے سکتاہے اگر چہ بیٹا راضی نہ ہو۔ وھو محمل قولہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان اطیب ما اکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ۔ اور یہی محمل ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کا کہ آدمی کا اپنے کسب سے کھانا نہایت پسندیدہ ہے اور بیٹا اس کا کسب ہے(ت۔)(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 643۔644، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قرآن خوانی میں بلند آواز سے تلاوت کرنا کیسا ہے؟
قرآن کریم میں مشرق اور مغرب کے لیے مختلف صیغے کیوں بولے گئے؟
کیا تلاوت قرآن کے دوران طلباء استاد کے آنے پرتعظیماًکھڑے ہو سکتے ہیں؟
قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا کیسا؟
عصر کی نماز کے بعدتلاوت کا حکم
لیٹ کر قرآن پڑھنا کیسا ؟
قرآ ن خوانی کے بعد کھانا یا رقم لینا دینا کیسا ؟
قرآن پاک کو تصاویر والے اخبار کے ساتھ دفن کرنا کیسا ؟