
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ احرام میں بال ٹوٹنے کے احکام پلکوں اور ابروؤں کے بالوں کو بھی شامل ہوں گے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
احرام میں بال ٹوٹنے کے احکام جسم کے دیگر بالوں کی طرح پلکوں اور ابروؤں کو بھی شامل ہیں، یعنی اگر ایک سے تین تک بال ٹوٹے، تو ہر بال کے بدلے میں ایک مٹھی اناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چُھوہارا خیرات کرے اور اگرتین سے زیادہ بال ٹوٹے ہیں، تو صدقہِ فطر دے، بہتر یہ ہے کہ ایک بال ٹوٹنے پر بھی پورا صدقہ دیدے۔
فقہائے کرام کی عبارات میں بال ٹوٹنے کے احکام بیان کرتے ہوئے ابروؤں اور پلکوں سمیت مکمل بدن کے بالوں کو ہی شامل کیا گیا ہے، چنانچہ احرام میں حرام کاموں کو شمار کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں:یہ احرام تھا، اِس کے ہوتے ہی یہ کام حرام ہوگئے:۔۔۔ سر سے پاؤں تک کہیں سے کوئی بال جداکرنا۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 10، صفحہ 732، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
دوسرے مقام پر بدن کو کھجانے کے متعلق بالعموم ہر طرح کے بالوں کی احتیاط بیان کرتے ہوئے لکھا: سر یا بدن اِس طرح کھجا نا کہ بال نہ ٹوٹے۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 10، صفحہ 734، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بال ٹوٹنے کے احکام محض سر، داڑھی یا مونچھ کے بالوں کو شامل نہیں، بلکہ دیگر بالوں کو بھی شامل ہیں، چنانچہ ناک کے بال نوچنے کے متعلق فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:
ان نتف من راسہ او من انفہ او لحیتہ شعرات فبکل شعرۃ کف من طعام۔
ترجمہ: اگراپنے سر یا ناک یا داڑھی سے چند بال نوچے ،تو ہر بال کے بدلے میں ایک مٹھی اناج ہے۔ (فتاویٰ قاضی خان، جلد 01، صفحۃ 256،مطبوعۃ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
انسان جب تنور میں روٹیاں لگاتا یانکالتا ہے، تو عموماً ہاتھ، کلائیوں اور چہرے کے بال جلتے ہیں، اِن بال جلنے میں ابرو اور پلکوں کاجلنا بھی شامل ہے اور تنور میں روٹیاں لگاتے ہوئے ابرو یا پلکوں کا جلنا کافی حد تک ممکن بھی ہے کہ تنور میں جھک کر روٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ ابو البقاء علامہ احمد مکی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:854ھ/1450ء) لکھتے ہیں:
إذا خبز العبد المحرم، فاحترق بعض شعر بدنه في التنور، فعليه إذا عتق صدقة۔۔۔وفي «جوامع الفقه» للعتابي: وإن خبز فاحترق بعض شعره، يتصدق۔
ترجمہ: اگر احرام کی حالت میں کوئی غلام روٹی پکائے اور تنور میں اس کے جسم کے کسی بھی حصے کے کچھ بال جل جائیں، تو جب وہ آزاد ہوگا تو اس پر صدقہ لازم ہے۔ اور امام عتابی کی کتاب ”جوامع الفقہ“ میں ہے کہ اگر کوئی مُحْرم روٹی پکائے اور اس کے کچھ بال جل جائیں، تو وہ صدقہ دے۔ (البحر العمیق، جلد 02، الفصل الثالث : إزالة الشعر، صفحہ 853، مطبوعہ مؤسسۃ الریَّان، بیروت)
”البحر العمیق“ میں صدقہ دینے کا حکم لکھا گیا۔ اِس کی بنیاد یہ ہے کہ بال ٹوٹنے کے متعلق کتبِ مناسک میں فقہاء کرام کی دو طرح کی آراء ہیں۔ (1) ہر بال کے بدلے ایک صدقہِ فطر۔ (2) تین بال تک ہر بال کے لیے ایک مٹھی اناج یا ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چُھوہارا دیا جائے۔ بظاہر ”البحر العمیق“ میں ”یتصدق“ یا ”صدقۃ“ سے مراد ”صدقہِ فطر“ ہے، مگر یہ اُسی پہلی رائے کی بنیاد پر ہے، جبکہ دوسری رائے بھی اپنی جگہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہے، چنانچہ اگر کوئی تین بال تک ایک مٹھی اناج صدقہ کر دیتا ہے، تو یہ بھی درست ہے، مگر اختلافِ فقہاء سے نکلنے کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ ہر بال کے بدلے صدقہِ فطر ادا کر دیا جائے۔ فتاوٰی رضویہ میں ہے: وضو کرنے یا کھجانے یا کنگھی کرنے میں جو بال گرے، اس پر بھی پورا صدقہ ہے، اور بعض نے کہا دو تین بال تک ہر بال کے لیے ایک مٹھی اناج یا ایک روٹی کا ٹکڑا یا ایک چُھوہارا۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 10، صفحہ 760، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9392
تاریخ اجراء: 07 محرم الحرام 1447ھ / 03 جولائی 2025ء