مکہ میں رہنے والے شخص کا حرم کے اندرسے احرام باندھنا

مکہ میں رہنے والا شخص حرم کے اندرسے ہی احرام باندھ لے تو کیا حکم ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آفاقی شخص نے میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ مکمل کر لیا، اب مزید عمرہ ادا کرنے کے لئے مسجد عائشہ جاکر عمرہ کی نیت کی، چادریں پہنی اور احرام کے نفل پڑھے، لیکن تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر پڑھنا بھول گیا اور طواف شروع کرنے سے پہلے یاد آنے پر کعبہ کے سامنے احرام کی نیت کی اور احرام کی نیت سے تلبیہ پڑھ کر عمرے کو مکمل کرلیا۔شرعی رہنمائی فرما دیجئے کہ کیا اس شخص کا عمرہ ادا ہوگیا؟ نیز کیا اس پر دم وغیرہ لازم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں عمرہ ادا ہوگیا، البتہ حل کی بجائے حرم میں احرام باندھ کر عمرہ کر لینے کی وجہ سے اس شخص نے واجب ترک کیا، لہذا اس گناہ سے توبہ کے ساتھ ساتھ اس پر دم دینا بھی لازم ہے۔

اس بارے میں تفصیل یہ ہےکہ صرف دو چادریں پہننے کا نام احرام نہیں، بلکہ نیت مع تلبیہ کا نام احرام ہے، یعنی محرم ہونے کے لئے احرام کی نیت کے ساتھ ساتھ تلبیہ یا اللہ تعالیٰ کی تعظیم پر مشتمل کوئی ذکر، مثلاً: سبحٰن اللہ یا الحمدُ للّٰہ وغیرہ پڑھنا ضروری ہے، حتی کہ اگر کسی نے احرام کی نیت کرلی، لیکن تلبیہ یا اللہ تعالیٰ کی تعظیم پر مشتمل کوئی ذکر نہ پڑھا، تو وہ صرف نیت کرنے سے محرم نہیں ہوگا۔ نیز مکی اور جو مکی کے حکم میں ہے اس کے لئے عمرہ کا احرام حل سے باندھنا واجب و ضروری ہے، اگر اس نے جان بوجھ کر حل کی بجائے حرم سے احرام باندھا، تو وہ محرم تو ہوجائے گا، لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے گناہگار ہوا اور اس پر دم بھی لازم ہے، ایسی صورت میں طواف شروع کرنے سے قبل اس پر واجب ہے کہ واپس اپنی میقات(حل) پر جاکر تلبیہ کہے، اس سے اس پر واجب شدہ دم ساقط ہوجائے گا، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اسی طرح عمرہ کر لیتا ہے، تو اس پر دم کی ادائیگی متعین ہو جائے گی۔

اب صورتِ مسئولہ میں جب آفاقی عمرہ کرکے مکہ ہی میں رہا، تو وہ مکی کے حکم میں ہوگیا اور مکی پر حل سے عمرہ کا احرام باندھنا لازم ہے، چنانچہ اس نے حل(مسجد عائشہ) جاکر عمرہ کی نیت تو کرلی، لیکن تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر نہ پڑھا، تو وہ وہاں محرم نہ بن سکا۔ بعد ازاں یاد آنے پر حل(مسجد عائشہ) واپس لوٹ کر تلبیہ کہنے کی بجائے، اس نے حرم (مکہ مکرمہ) میں طواف سے پہلے احرام کی نیت کی اور احرام کی نیت سے تلبیہ پڑھا، تو ایسی صورت میں حرم کے اندر احرام باندھنا پایا گیا، لہذا ترک واجب کی وجہ سے اس پر دم لازم ہوگیا، جس کو حدودِ حرم میں ادا کرنا ضروری ہے۔

تنبیہ! دم سے مراد قربانی کی شرائط پر پورا اترنے والا ایک جانور(بکرا، بکری، بھیڑ وغیرہ) ہے، جس کو حدودِحرم میں ذبح کرنا ضروری ہے۔

احرام کی شرائط میں سے ایک شرط تلبیہ کہنا بھی ہے۔ چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رکن احرام کے صرف دو ہیں، دل سے نیت اور اس کے ساتھ زبان سے وہ ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہو، خواہ لبیک یا کچھ اور مثلسبحان اللہ یا الحمد للّٰہ یا اللہ اکبر یا اللھم اغفرلی وغیرذلک جب یہ دونوں باتیں پائی گئیں، احرام بندھ گیا اور جو کچھ مُحرم پر حرام تھا، حرام ہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ779، 780، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بہار شریعت میں ہے: احرام کے لیے ایک مرتبہ زبان سے لبیک کہنا ضروری ہے اور اگر اس کی جگہ سُبْحٰنَ اللہِ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یا کوئی اور ذکرِ الٰہی کیا اور احرام کی نیت کی، تو احرام ہوگیا، مگر سنت لبیک کہنا ہے۔  (بہار شریعت، ج 1، حصہ 6، ص 1074، مکتبۃ المدینہ کراچی)

اگر عمرہ کی نیت کی، لیکن تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر نہ پڑھا، تو وہ محرم نہیں ہوگا۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

 اماشرطہ فالنیۃ حتی لایصیر محرما بالتلبیۃ بدون نیۃ الاحرام ولا یصیر شارعا بمجرد النیۃ ما لم یات بالتلبیۃ او ما یقوم مقامھا من الذکر

ترجمہ: بہرحال احرام کی شرط، تو وہ نیت ہے، یہاں تک کہ احرام کی نیت کے بغیر تلبیہ کہنے سے محرم نہ ہوگا۔اسی طرح صرف احرام کی نیت کرنے سے محرم نہیں ہوگا، جبکہ تک احرام کی نیت سے تلبیہ یا اس کے قائم مقام ذکرنہ کرلے۔  (فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ 222، مطبوعہ کوئٹہ)

میقات سے احرام باندھنا واجب ہے۔ چنانچہ لباب المناسک میں ہے:

”واجباتہ کونہ من المیقات وصونہ من المحظورات“

 ترجمہ: میقات سے احرام باندھنا اور ممنوعات سے بچنا احرام کے واجبات میں سے ہے۔ (لباب المناسک، باب الاحرام، صفحہ83، الناشر: دار قرطبۃ)

مکی حل سے ہی عمرہ کا احرام باندھےگا۔ چنانچہ سنن الترمذی میں ہے:

”عن عبد الرحمن بن أبي بكر: أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر عبد الرحمن بن أبي بكر أن يعمر ‌عائشة ‌من ‌التنعيم۔هذا حديث حسن صحيح“

ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تنعیم سے عمرہ کروائیں۔ امام ابو عیسی ترمذی علیہ الرحمہ نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی، باب ما جاء في العمرة من التنعيم، حدیث952، ج2، ص434، الناشر: دار الرسالة العالمية)

اسی بارے میں رد المحتار اور بحر الرائق میں ہے:

”(وللمكي الحرم للحج والحل للعمرة) أي ميقات المكي إذا أراد۔۔۔العمرة الحل“

ترجمہ: مکی کے لئے حج کی میقات حرم ہے اور عمرے کی میقات حل ہےیعنی جب مکی عمرے کا ارادہ کرے تو اس کی میقات حل (حدودِ حرم سے باہر)ہے۔ (بحر الرائق، کتاب الحج، ج 2، ص 343، دار الكتاب الإسلامي)

المسلک المتقسط میں ہے:

”من کان منزلہ فی الحرم کسکان مکۃ ومنی فوقتہ الحرم للحج۔۔۔والحل للعمرۃ“

ترجمہ: جس کی رہائش حرم میں ہو جیساکہ مکہ یا منی میں رہنے والا تو اس کی میقات حج کے لیے حرم ہے اور عمرے کے لیے حل ہے۔

 (المسلک المتقسط، فصل من کان منزلہ فی الحرم، ص 93، مطبوعہ کوئٹہ)

مکی نے عمرہ کا احرام حل کی بجائے اگر حرم سے باندھا، تو اس پر دم لازم ہوگا۔ چنانچہ رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

”فلو عكس فأحر م للحج من الحل أو للعمرة من الحرم لزمه دم إلا إذا عاد ملبيا إلى الميقات المشروع لہ كما في اللباب وغيره“

ترجمہ: اگر الٹ کیا یعنی مکی نے حج کا احرام حل سے یا عمرہ کا احرام حرم سے باندھا، تو اس پر دم لازم ہوگا، مگر یہ کہ وہ اپنے مشروع میقات کی طرف لوٹ کر تلبیہ کہے، جیسا کہ لباب وغیرہ میں ہے۔ (رد المحتارعلى الدر المختار، کتاب الحج، ج2، ص478/479، الناشر: مصر)

اسی طرح ارشاد الساری میں ہے:

”(فلو احرم آفاقی داخل الوقت)ای فی داخل المیقات(واھل الحرم) ای احرموا (من الحل للحج ومن الحرم للعمرۃ)۔۔۔(فعلیھم العود الی وقت) ای میقات شرعی لھم لارتفاع الحرمۃ وسقوط الکفارۃ(وان لم یعودوا فعلیھم الدم)والاثم لازم لھم(فان عاد)۔۔۔(قبل شروعہ فی طواف)۔۔۔(سقط )ای الدم(ان لبی منہ)“

ترجمہ: اگر آفاقی نے میقات کے اندر داخل ہوکر احرم باندھا اور حرم والوں نے حج کا احرام حل سے اور عمرہ کا احرام حرم سے باندھا، تو ان پر لازم ہے کہ وہ حرمت کے ارتفاع اور کفارے کو ساقط کرنے کے لئے اپنی میقاتِ شرعی کی طرف واپس آئیں اور اگر وہ واپس نہ آئیں، تو ان پر دم لازم ہوگا اور ان کو گناہ بھی ملے گا اور اگر وہ طواف شروع کرنے سے پہلے واپس لوٹ کر وہاں تلبیہ کہہ لے، تو دم ساقط ہوجائے گا۔ (ارشاد الساری الی مناسک الملا علی قاری، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، صفحہ95، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ملتقطا)

مکی نے عمرہ کا احرام حل کی بجائے حرم سے باندھا، تو وہ محرم ہوجائے گا۔چنانچہ فتاوی حج و عمرہ میں سوال ہوا کہ ایک شخص نے مکہ مکرمہ میں اپنے ہوٹل سے جو مکہ شہر اور حدود حرم میں تھا، احرام باندھا اور جا کر طواف وسعی کی اور احرام کھول دیا، اب اس پر کیا لازم ہے ؟ جوابا ارشاد فرمایا: ”صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جب حدود حرم میں واقع اپنے ہوٹل سے احرام باندھا، اس کا احرام باندھنا، تو درست ہو گیا، کیونکہ میقات سے احرام باندھنا احرام کی شرائط میں سے نہیں، فقہائے کرام نے اسے واجبات کے بیان میں ذکر کیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ میقات سے احرام باندھنا شرط نہیں، بلکہ واجب ہے۔۔۔۔اور وہ شخص چونکہ مکہ مکرمہ میں تھا اور عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے اس کی میقات حل یعنی حدود حرم سے باہر جانا تھا اور میقات سے احرام باندھنا واجب ہے، جب یہ واجب اس نے ترک کیا، تو اس پردم لازم آیا۔“ (فتاوی حج وعمرہ، جلد10، صفحہ24/25، ناشر جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)

حل(مسجد عائشہ) میں بھول کر تلبیہ ترک کرنے کی وجہ سے وہ شخص گنہگار نہ ہوا لیکن یاد آنے پر حل کی بجائے حرم میں ہی احرام باندھنے کی وجہ سے اس شخص نے جان بوجھ کرواجب ترک کیا، جس کی وجہ سے وہ گنہگار بھی ہوا اور اس پر دم بھی لازم ہوا۔چنانچہ چنانچہ لباب المناسک میں ہے:

’’حکم الوجبات لزوم الجزاء بترک واحد منھا۔۔۔سواء ترکہ عمداًا وسھواً لیکن العامد آثم “

ترجمہ: واجبات کا حکم یہ ہےکہ ان میں سے کسی ایک کے ترک سے جزا لازم ہوگی، چاہےاس نے جان بوجھ کر ترک کیا ہو یا بھولے سے چھوٹ جائے، البتہ جان بوجھ کر چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ (لباب المناسک، فصل فی واجباتہ، صفحہ72، الناشر: دار قرطبۃ)

دم کے جانور سے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ’’اِس فصل میں جہاں دم کہیں گے اس سے مراد ایک بھیڑ یا بکری ہوگی، اوربدنہ اونٹ یا گائے۔یہ سب جانور اُن ہی شرائط کے ہوں، جوقربانی میں ہوں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ757، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

دم حدودِ حرم میں دینا ضروری ہے۔ چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے: ”(ذبح) فی الحرم “ ترجمہ: قربانی حرم میں کرے۔

  اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ”فلو ذبح فی غیرہ لم یجز“ ترجمہ: تو اگراس نےحرم کے علاوہ کسی اور جگہ قربانی کردی، تووہ اسے کافی نہیں ہو گی۔ (رد المحتار على الدر المختار، جلد02، صفحہ558، الناشر: بمصر)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:GUJ-0053

تاریخ اجراء:  28ربیع الثانی1447ھ22 ستمبر 2025ء