مکہ سے حضرت میمونہ کے مزار پر جا کر لوٹنے پر احرام کا حکم

مکہ سے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے مزار پر جا کر واپس آنے پر احرام کا حکم

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی زائر سیدہ میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے مزارِ مبارک پر حاضری کے لیے جائے تو کیا واپسی پر احرام باندھ کر حرم شریف آنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ام المؤمنین حضرت میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا مزار مبارک حدودِ حرم سے باہر مگر ”حل“ میں ہے اور حکم شرعی یہ ہے کہ اگر کوئی زائر یا حرم میں مقیم شخص جدہ، تنعیم (مسجد عائشہ)، جعرانہ یا مزارِ سیدہ میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا پر حاضر ہو تو اُسے واپس حرم آتے ہوئے احرام باندھ کر آنا ضروری نہیں، کیونکہ یہ سب مقامات ”حِل“ میں ہیں اور حِل میں جا کر حرم واپس آنے والے پر اُسی صورت میں احرام باندھنا لازم ہوتا ہے، جب حرم آتے ہوئے حج یا عمرہ کا ارادہ ہو، لہذا اگر یہ ارادہ نہیں تو احرام باندھنا بھی ضروری نہیں۔

اہلِ حل جب عمرہ کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو بلااحرام حرم آ سکتےہیں۔ علامہ شیخ رحمت اللہ سندھی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 993ھ/1585ء) لکھتے ہیں:

لھم دخول مکۃ بغیر احرام اذا لم یریدوا نسکا والا فیجب

ترجمہ: جب اہلِ حِل کا حج وعمرہ کا ارادہ نہ ہو تو اُن کا بغیر احرام مکہ میں داخلہ درست ہے، البتہ اگر ارادہِ نُسک ہو تو احرام باندھنا لازم ہے۔ (لباب المناسک، باب المواقیت، صفحہ79، مطبوعہ دارقرطبۃ)

اگر حلی کو بھی احرام کے ساتھ ہی حرم آنے کا پابند کیا جائے تو اس میں شدید حرج ہے۔ صاحبِ ترجیح علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:

لأنه يكثر دخوله مكة، وفي إيجاب الإحرام في كل مرة حرج بين فصار كأهل مكة حيث يباح لهم الخروج منها ثم دخولها بغير إحرام لحاجتهم، بخلاف ما إذا قصد أداء النسك لأنه يتحقق أحيانا فلا حرج

 ترجمہ: کیونکہ اُن کا مکہ میں کثرت سے داخلہ رہتا ہے، لہذا ہر مرتبہ داخلے پر احرام لازم کر دینے میں واضح حرج ہے، لہذا وہ حِلّی اہلِ مکہ کی طرح ہی ہیں، کہ جیسے اُن کے لیے ضروریات کے سبب مکہ سے نکلنا اور بغیر احرام واپس داخل ہو جانا، جائز ہے، اِسی طرح حِلّی کا حکم ہے، ہاں جب حِلّی حج وعمرہ کی ادائیگی کا ارادہ کرے تو احرام باندھنا لازم ہے کہ یہ ارادہ کبھی کبھار ہوتا ہے، لہذا اِس میں حرج بھی نہیں، تو احرام باندھنا بھی ضروری ہو گا۔ (الھدایۃ مع فتح القدیر، جلد02، صفحہ 433، مطبوعۃ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 855ھ/1451ء) صاحبِ ہدایہ کی عبارت کی شرح کرتے ہوئے بطورِ دلیل یہ روایت لائے:

روي عن ابن عباس رضي اللہ عنهما «أنه عليه الصلاة والسلام رخص ‌للحطابين أن يدخلوها بغير إحرام» والظاهر أنهم لا يجاوزون الميقات، فدل أنه من كان داخل الميقات

ترجمہ: حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لکڑیاں کاٹنے والوں کو بغیر احرام حرم میں داخلے کی رخصت مرحمت فرمائی تھی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وہ لوگ میقات کو تجاوز نہیں کرتےتھے، لہذا اِس روایت نے اس حکمِ شرعی پر دلالت کی کہ جو میقات کے اندر رہتے ہیں، اُن کا بلااحرام داخلہ درست ہے۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، جلدصفحہ 212، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے حل میں جا کر بلااحرام، حرم میں داخل ہونا ثابت ہے، چنانچہ”الأصل لمحمد بن الحسن الشيباني“ میں ہے:

بلغنا عن ابن عمر رضي اللہ عنهما أنه خرج من مكة إلى قديد ثم رجع إلى مكة فدخلها بغير إحرام

 ترجمہ: ہمیں حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے متعلق روایت پہنچی کہ وہ مکہ مکرمہ سے نکل کر ”قُدید“ گئے اور پھر وہاں سے بلااحرام واپس مکہ مکرمہ آئے۔ (کتاب الأصل، جلد02، صفحہ518، مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9630

تاریخ اجراء:  26 جمادی الاولٰی1447ھ/ 18 نومبر 2025ء