دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایام حج (9، 10، 11، 12، 13 ذوالحجۃ الحرام) میں حاجی اور غیر حاجی کے لیے عمرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں حاجی ہو یا غیرحاجی، دونوں کیلئے ہی 9 ذوالحجہ سے لے کر13 ذوالحجہ تک عمرے کا احرام باندھنا مکروہ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے، جس نے ان تاریخوں میں احرام باندھ لیا تو وہ یہ احرام ختم کردے اور بعد کی تاریخوں میں عمرے کی قضا کرےاور دم بھی دے، البتہ اگر کسی نے ان تاریخوں میں احرام باندھ کر عمرہ کرلیا، تو اس کا عمرہ ادا ہوجائے گا، مگر اس پردم لازم رہے گا۔یاد رہے کہ یہ ممانعت ان تاریخوں میں احرام باندھنے کی ہے، عمرہ ادا کرنے کی ممانعت نہیں ہے، پس اگر کسی نے ان تاریخوں سے پہلے احرام باندھا تھا، عمرہ کی ادائیگی ان تاریخوں میں کی، تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس کیلئے بھی مستحب یہی ہے کہ ان تاریخوں کو گزار کرعمرہ کی ادائیگی کرے۔
پانچ ایام (9 ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک) میں عمرہ کے متعلق السنن الکبری للبیہقی، کتاب الآثار لمحمد اور الآثار لابی یوسف میں ہے:
والنظم للآخر: عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: ”لا بأس بالعمرة في أي أشهر السنة شئت، ما خلا خمسة أيام أو أربعة من السنة: يوم عرفة، ويوم النحر، وأيام التشريق“
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ سال کے کسی بھی مہینے میں عمرہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، سوائے پانچ یا چار ایام کے، یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق۔ (الآثار لابی یوسف، حدیث531، صفحہ113، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
اسی طرح شرح وقایہ، مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، البحر العمیق اور درمختار مع تنویر الابصار میں ہے:
والنظم للآخر: ”(وجازت في كل السنة) وندبت في رمضان (وكرهت) تحريما (يوم عرفةوأربعة بعدها) أي كره إنشاؤها بالاحرام حتى يلزمه دم، و إن رفضها، لا أداؤها فيها بالاحرام السابق“
یعنی عمرہ پورے سال میں جائز ہے، اور رمضان میں اس کا کرنا مستحب ہے۔ اور یومِ عرفہ اور اس کے بعد چار دن میں عمرہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، یعنی ان دنوں میں نیا احرام باندھ کر عمرہ شروع کرنا مکروہِ تحریمی ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی احرام باندھ لے، تو اس پر دم لازم آئے گا، اگرچہ وہ اس احرام کو ختم کردے، البتہ ان دنوں میں پہلے سے بندھے ہوئے احرام کے ساتھ عمرہ ادا کرنا مکروہ نہیں۔ (درمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ157، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)
اگر کسی نے انہی ایام میں نیا احرام باندھ لیا، تو حکم یہ ہے کہ اسےختم کر دے اور قضا کے ساتھ دم ادا کردے، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”دسویں سے تیرھویں تک حج کرنے والے کو عمرہ کا احرام باندھنا ممنوع ہے، اگر باندھا تو توڑ دے اور اُس کی قضا کرے اور دَم دے اور کرلیا تو ہوگیا مگر دَم واجب ہے۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ6، صفحہ1193، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اگر پہلے سے احرام بندھا ہوا ہو اور ان ایام میں عمرہ کیا، تو کراہت نہیں، جیسا کہ البحرالعمیق میں ہے:
”قال صاحب السراج الوھاج: والمراد بکراھۃ العمرۃ فی ھذہ الایام کراھۃ انشائھا بالاحرام، اما اذا اداھا باحرام سابق۔۔۔لایکرہ
“یعنی صاحب السراج الوھاج فرماتے ہیں: ان ایام میں عمرہ کو مکروہ قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ نیا احرام باندھ کر عمرہ کرنا ہے۔ تاہم اگر اس نے پہلےسے بندھے ہوئے احرام کے ساتھ عمرہ کرلیا، تو مکروہ نہیں ہے۔ (البحر العمیق، صفحہ2026، مطبوعہ موسسۃ الریان)
رفیق الحرمین نامی کتاب میں ہے: ” عمرہ کا وقت پورا سال ہے مگر پانچ دن عمرہ کا احرام باندھنا مکروہ تحریمی ہے۔اور اگر نویں سے قبل باندھے ہوئے احرام کے ساتھ ان (پانچ) دنوں میں عمرہ کیا، تو کوئی حرج نہیں اور اس صورت میں مستحب یہ ہے کہ ان دنوں کو گزار کر عمرہ کرے۔“ (رفیق الحرمین، صفحہ319، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
فتوی نمبر: OKR-0148
تاریخ اجراء: 23جمادی الاول1447ھ/15نومبر 2025 ء