دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حج تمتع کرنے والے کاحج کی قربانی سے پہلے طوافِ زیارت کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا اس پر دم لازم آئے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حجِ تمتع کرنے والے کاحج کی قربانی سے پہلے طواف ِ زیارت کرنا مکروہ تنزیہی(ناپسندیدہ) وخلافِ سنت ہے۔ تاہم اس پر دم لازم نہیں آئے گا۔
اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ حاجی پر ایام ِنحر میں چار چیزیں لازم ہیں: (1)رمی (2) متمتع اور قارن حاجی پر حج کی قربانی، مفرد پرحج کی قربانی واجب نہیں (3) حلق یا تقصیر(4) طوافِ زیارت جو کہ فرض ہے۔ پہلے تین واجبات (رمی، قربانی، حلق/تقصیر) کی آپس میں ترتیب لازم و ضروری ہے۔ ان کو خلافِ ترتیب ادا کرنے کی صورت میں دم لازم آئے گا، جبکہ طوافِ زیارت کو پہلے تین واجبات کے ساتھ بالترتیب ادا کرنا لازم نہیں بلکہ سنت ہے لہذا رمی، قربانی اور حلق یا تقصیر کے بعد ہی طوافِ زیارت کیا جائے البتہ اگر کسی نے طوافِ زیارت سے پہلے قربانی یا رمی یا حلق کر لیا تو اس پر دم وغیرہ کچھ بھی لازم نہیں ہوگا، البتہ ترکِ سنت کی وجہ سے اس کا یہ عمل مکروہ ہوگا۔
در مختار میں ہے
”فيجب في يوم النحر أربعة أشياء: الرمي، ثم الذبح لغير المفرد، ثم الحلق ثم الطواف“
ترجمہ: یوم النحر چار امور لازم ہیں: رمی، پھر غیر مفرد پر ذبح، پھر حلق، پھر طواف۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الحج، ج 2، ص 555، دار الفکر، بیروت)
لباب و شرح لباب میں ہے
”(قیل: والترتیب بین کل من الرمی والحلق وبین الطواف، وھو)ای وھذا القیل(خلاف المشھور) فانھم نصوا علی ان الترتیب بین الحلق والطواف لیس بواجب بل ھو سنۃ، فلو حلق بعد طواف الزیارۃ لا شئی علیہ، وکذا الترتیب بین الرمی والطواف لیس بواجب بل ھو سنۃ، واما الترتیب بین الرمی والحلق فواجب“
ترجمہ: کہا گیا ہے کہ رمی، حلق اور طواف کے مابین ترتیب واجب ہے، لیکن یہ خلاف مشہور ہے کیونکہ فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ حلق و طواف میں ترتیب واجب نہیں، سنت ہے تو اگر کسی نے طوافِ زیارت کے بعد حلق کیا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا، یونہی رمی و طواف میں ترتیب واجب نہیں، سنت ہےاور رمی و حلق میں ترتیب واجب ہے۔ (لباب و شرح لباب، فصل فی واجبات الحج، ص 97، 98، مطبوعہ عرب شریف)
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے
”(وواجبه)۔۔۔ (والترتيب الآتي) بيانه: (بين الرمي والحلق والذبح يوم النحر) وأما الترتيب بين الطواف وبين الرمي والحلق فسنة فلو طاف قبل الرمي والحلق لا شيء عليه ويكره لباب“
ترجمہ: حج کے واجبات: یوم النحر کو رمی، حلق اور ذبح میں ترتیب رکھنا واجب ہے اور بہرحال طواف اور رمی و حلق میں ترتیب سنت ہے تو اگر کسی نے رمی و حلق سے پہلے طواف کرلیا تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
”(قوله والترتيب الآتي بيانه إلخ) أي في باب الجنايات حيث قال هناك: يجب في يوم النحر أربعة أشياء: الرمي، ثم الذبح لغير المفرد، ثم الحلق، ثم الطواف لكن لا شيء على من طاف قبل الرمي والحلق نعم يكره لباب كما لا شيء على المفرد إلا إذا حلق قبل الرمي لأن ذبحه لا يجب اهـ وبه علم أنه كان ينبغي للمصنف هنا تقديم الذبح على الحلق في الذكر ليوافق ما بينهما من الترتيب في نفس الأمر، وأن الطواف لا يلزم تقديمه على الذبح أيضا لأنه إذا جاز تقديمه على الرمي المتقدم على الذبح جاز تقديمه على الذبح بالأولى كما قاله ح.والحاصل أن الطواف لا يجب ترتيبه على شيء من الثلاثة ولذا لم يذكره هنا وإنما يجب ترتيب الثلاثة الرمي ثم الذبح ثم الحلق لكن المفرد لا ذبح عليه فبقي عليه الترتيب بين الرمي والحلق“
ترجمہ: (مصنف کا قول: ان میں ترتیب رکھناواجب ہے، جس کا بیان آئے گا۔۔الخ)یعنی جنایات کے بیان میں آئے گا، مصنف نے وہاں فرمایا: یوم النحر میں چار چیزیں واجب ہیں۔: رمی، پھر غیر مفرد کے لئے قربانی، پھر حلق، پھر طواف، لیکن جس نے رمی و حلق سے پہلے طواف کرلیا تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے، لباب، جیسا کہ مفرد پر کچھ لازم نہیں ہوتا مگر جب وہ رمی سے پہلے حلق کرلے کیونکہ قربانی کرنا اس پر واجب نہیں، انتہی، اسی سے معلوم ہوگیا کہ مناسب تھا کہ مصنف یہاں حلق پر ذبح کے مقدم کرنے کو بھی ذکر کرتے تاکہ ان کے مابین جو ترتیب ہے فی نفسہ اس کے موافق ہوجاتا، اور طواف کو ذبح پر مقدم کرنا لازم نہیں کیونکہ جب طواف کو رمی (جو کہ ذبح پر مقدم ہوتی ہے)پر مقدم کرنا جائز ہے تو ذبح پر مقدم کرنا بدرجہ اولی جائز ہے، جیسا کہ علامہ حلبی نے فرمایا۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ طواف کی مذکورہ تین امور میں ترتیب واجب نہیں، اسی لئے مصنف نے اسے یہاں ذکر نہیں کیا اور تین چیزوں یعنی رمی، پھر ذبح پھر حلق میں ترتیب واجب ہے لیکن مفرد پر چونکہ ذبح واجب نہیں تو اس پر دو چیزوں میں ترتیب لازم ہے: رمی و حلق۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، ج 2، ص 467، 470، دار الفکر، بیروت)
درمختار کے قول"یکرہ"کے تحت حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:"(ویکرہ)ای تنزیھا، لانھا فی مقابلۃ السنۃ"ترجمہ: مکروہ تنزیہی ہے
کیونکہ وہ سنت کے مقابل ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، کتاب الحج، جلد3، ص501، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:GUJ-0034
تاریخ اجراء: 17 ربیع الاول1447ھ12 ستمبر2025ء