بغیر غسل عمرہ کرنے کا حکم

 

بغیر غسل عمرہ کر لیا تو کیا حکم ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں کراچی سے عمرہ کیلئے گیا تھا، وہاں ایک رات سوکر اٹھا تو اپنے کپڑوں پر تری دیکھی، مجھے یاد تھا کہ خواب میں احتلام ہوا تھا، لیکن شک تھا کہ یہ منی ہے یا مذی، میں نے یہ گمان کیا کہ غسل تو صرف منی سے فرض ہوتا ہےاور چونکہ مجھے یقینی علم نہیں کہ یہ منی ہے، اس لیے میں نے غسل نہیں کیا۔ پھر بغیر غسل کیے نمازِ فجر ادا کی، اس کے بعد میقات جا کر احرام باندھا اور اسی حالت میں عمرہ ادا کیا۔ اس دن کی تمام نمازیں بھی اسی حالت میں پڑھیں۔ بعد ازاں میں نے رات کو غسل کیا اور کراچی واپسی کی فلائٹ لے لی۔

اب میں کراچی میں اپنے گھر آگیا ہوں، یہاں پہنچ کر میں نے اس مسئلے کے بارے میں دو مختلف مسجدوں کے امام صاحبان سے دریافت کیا، ایک امام صاحب نے فرمایا کہ آپ پر غسل واجب تھا۔ دوسرے امام صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو اس رات سونے سے پہلے شہوت تھی؟ میں نے جواب دیا کہ جی اس رات مجھے شہوت تھی، میں شہوت کی حالت میں سویا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ پر غسل واجب نہیں تھا، کیونکہ بہارِ شریعت میں لکھا ہے کہ اگر احتلام سے پہلے شہوت موجود ہو تو بیداری کے بعد پائی جانے والی تری منی نہیں مانی جائے گی۔ لہٰذا آپ کی نمازیں اور عمرہ درست ہیں۔

ان مختلف جوابات کو سن کر میں تشویش میں مبتلا ہوں، اس لیے وہاں جتنی نمازیں غسل کئے بغیر پڑھی تھیں، انہیں میں نے دہرا لیا ہے۔ البتہ جو عمرہ کیا تھا اس کا کیا ہوگا؟ اس حوالےسے میری رہنمائی فرمادیں کہ واقع میں مجھ پر غسل لازم تھا یا نہیں ؟کیا مجھ پر دم لازم ہے ؟ اگر میں دوبارہ وہاں جاکر عمرہ کرنا چاہوں تو کیا سعی بھی دوبارہ کرنا ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ پر غسل لازم تھا اور بغیر غسل کئے آپ کیلئے نمازیں پڑھنا اور عمرے کا طواف کرنا بالکل جائز نہیں تھا، لہٰذا جتنی نمازیں بغیر غسل کئے وہاں پڑھیں، ان کی قضا ذمہ پر باقی تھی جو آپ بعد میں ادا کرچکے۔

رہا عمرے کا معاملہ ! تو اس کا حکم یہ ہے کہ نفسِ عمرہ تو ادا ہوگیا، لیکن چونکہ طواف میں نجاست حکمیہ یعنی جنابت وغیرہا سے پاک ہونا واجب ہے، لہٰذا جب آپ نے جنابت کی حالت میں طواف عمرہ کیا تو واجب چھوڑ دینے کی وجہ سے آپ گنہگار ہوئے اور اس وجہ سے آپ پر ایک دم لازم ہے۔ہاں! اگر آپ دوبارہ مکہ مکرمہ جا کر احرام باندھ کر پاکی کی حالت میں اس طواف کا اعادہ کرلیتے ہیں تو دم بھی ساقط ہوجائے گا۔ بہر حال سعی کا اعادہ کسی صورت واجب نہیں، ہا ں کرلیں تو افضل و بہتر ہے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ صورت مسئولہ میں غسل فرض ہونے کے متعلق مسئلہ کا معلوم نہ ہونا عذر نہیں مانا جائے گا، کیونکہ دار الاسلام میں جہالت (مسئلہ معلوم نہ ہونا)عذر نہیں ہے، جیسا کہ کتب فقہ میں یہ مسئلہ کئی مقامات پر مذکور ہے۔

مسئلہ کی تفصیل ودلائل درج ذیل ہیں:

 اگر کسی نے نیند سے اٹھ کر کپڑے پر تری پائی جس کے منی و مذی ہونے میں شک ہے، تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کو احتلام یاد ہے یا نہیں؟ اگر یاد ہے تو باتفاق ائمہ ثلاثہ علیہم الرحمۃ اس پر غسل واجب ہے، امام ابن مازہ حنفی علیہ الرحمۃ محیط برہانی میں لکھتے ہیں:

”إذا استيقظ الرجل ووجد على فراشه بللًا وهو يذكر احتلامًا، إن تيقن أنه مني أو تيقن أنه مذي أو شك أنه مني أو مذي، فعليه الغسل، لأن سبب خروج المني قد وجد وهو الاحتلام، فالظاهر خروجه“

 ترجمہ: جب کوئی شخص نیند سے بیداری پر بستر پر تری کو دیکھے اور اس کو احتلام یاد ہو تو اگر اس کو اس تری کے متعلق یقین ہو کہ یہ منی ہے یا یقین ہو کہ مذی ہے یا منی یا مذی ہونے کا شک ہو تو اس پر غسل لازم ہے کیونکہ یہاں منی نکلنے کا سبب یعنی احتلام پایا گیا ہے تو ظاہر منی کا نکلنا ہی ہے ۔ (المحیط البرھانی، ج01، ص 85، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی تحقیق بھی یہی ہے ، چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ اسی طرح کے مسائل سے متعلق لکھےہوئے اپنے رسالہ ”الاحکام و العلل فی اشکال الاحتلام و البلل“ میں لکھتے ہیں:

”وکذا ان کان علی صورۃ مترددۃ بین منی ومذی بالأولی للعلم بأن البلۃ ھی التی تنبعث عن شھوۃ وصورۃ المذی نفسھا تحتمل المنویۃ فیکون کونہ مذیا مجردا احتمالا فی احتمال فلا یعتبر ویجب الغسل وان لم یتذکر فان تذکر وافق الثانی أیضا وکان الاجماع“

 ترجمہ: اسی طرح اگر وہ تری ایسی صورت پر ہو جس کے منی اور مذی ہونے کے درمیان تردّد ہو تو بدرجہ اولیٰ غسل واجب ہے۔ اس لئے کہ معلوم ہے کہ یہ تری وہی ہے جو شہوت سے ابھرتی اورنکلتی ہے اور خود مذی کی صورت منی ہونے کا احتمال رکھتی ہے تو اس کا صرف مذی ہونا محض احتمال دراحتمال ہے اس لئے قابل اعتبار نہیں اور غسل واجب ہوگا اگرچہ خواب یاد نہ ہو۔ اگرخواب بھی یاد ہو توامام ابو یوسف کی موافقت بھی حاصل ہوجائے گی اور بالاجماع غسل واجب ہوگا۔ (فتاوٰی رضویہ، رسالہ الاحکام و العلل، ج01، حصہ دوم، ص 670، رضا فاؤ نڈیشن، لاہور)

ہاں! اگر احتلام یاد نہ ہو تو اب سونے سے قبل شہوت ہونے نہ ہونے کا اعتبار ہوتا ہے، اگر شہوت تھی تو اس تری کو اسی شہوت سے نکلنے والی مذی قرار دیں گے اور غسل واجب قرار نہ دیں گے اور اگر نہیں تھی تو اب غسل کو واجب قرار دیں گے، چنانچہ بنایہ، تبیین، فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں بالفاظ متقاربہ یوں منقول ہے:

وذكر هشام في «نوادره» عن محمد - رحمه الله - أنه إذا استيقظ فوجد بللا في إحليله ولم يتذكر حلما، إن كان ذكره قبل النوم منتشرا فلا غسل عليه وإن كان غير منتشر فعليه الغسل، قال ينبغي أن يحفظ هذا فإن البلوى كثرت فيه والناس عنه غافلون“

 ترجمہ: اور ہشام نے اپنی نوادر میں امام محمد رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب کسی نے نیند سے بیداری پر اپنے عضو تناسل کے سوراخ پر تری کو پایا اور اس کو احتلام ہونا یاد نہیں تو اگر اس کا ذکر نیند سے قبل منتشر تھا تو اس پر غسل نہیں اور اگر منتشر نہیں تھا تو غسل لازم ہے، اور فرمایا کہ اس مسئلہ کو یاد کرلیا جائے کیونکہ لوگ اس میں کثرت سے مبتلا ہونے کے باوجود اس سے غافل ہیں۔ (البنایۃ، ج1، ص 331، و، تبیین الحقائق، ج1، ص 67، دارالکتب العلمیۃ) (فتح القدیر، ج1، ص 53، سکھر)

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے رسالہ الاحکام و العلل میں ہے: ” اور جہاں مذی کا بھی شک ہو، اس میں ایک صورت کا استثنا، وہ یہ کہ اگر سونے سے کچھ پہلے اسے شہوت تھی ذکر قائم تھا اب جاگ کر تری دیکھی جس کا مذی ہونا محتمل ہے اور احتلام یاد نہیں تو اسے مذی ہی قرار دیں گے غسل واجب نہ کریں گے جب تک اس کے منی ہونے کا ظن غالب نہ ہو اور اگر ایسا نہ تھا اور تری مذکور پائی جس کا منی ومذی ہونا مشکوک ہے تو بدستور صرف اسی احتمال پر غسل واجب کردیں گے منی کے غالب ظن کی ضرورت نہ جانیں گے۔“

اسی میں تنبیہ رابع عشر کے حاشیہ میں ہے: ” صورت استثنا صرف اس حالت سے متعلق ہے کہ احتلام یاد نہ ہو اور تری خاص مذی ہو یا منی و مذی میں مشکوک۔ “ (فتاوی رضویہ، ج01، حصہ ب، ص 631، 763، رضا فاونڈیشن، لاہور )

بہا رشریعت کے مسئلہ میں بھی یہ قید صراحۃً موجود ہے، چنانچہ صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ لکھتےہیں: اگر سونے سے پہلے شَہوت تھی آلہ قائم تھا اب جاگا اور اس کا اثر پایا اور مذی ہونا غالب گمان ہے اور اِحْتِلام یاد نہیں تو غُسل واجب نہیں، جب تک اس کے مَنی ہونے کا ظن غالب نہ ہو۔“ (بہار شریعت، ج01، ص 321، 322، مکتبۃ المدینہ )

لہٰذا صورت مسئولہ میں جبکہ آپ کو اس تری کے منی ومذی ہونے کے متعلق شک تھا اور احتلام ہونا بھی یاد تھا تو آپ پر غسل لازم تھا ، اس میں سونے سے قبل شہوت ہونے سے مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اب جبکہ آپ نے بغیر غسل کئے حالت جنابت میں ہی عمرے کا طواف کیا، تو اس کی وجہ سے آپ گنہگار ہوئے، اور آپ پر دم لازم ہے، شرح اللباب میں ہے:

ثم اذاثبت أن الطھارۃ عن النجاسۃ الحکمیۃ واجبۃ فلو طاف معھا یصح عندنا وعند احمد ولم یحل لہ ذلک ویکون عاصیا، ویجب علیہ الاعادۃ أو الجزاء ان لم یعد

ترجمہ: پھر جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ طواف کیلئے نجاست حکمیہ سے پاک ہونا واجب ہے تو اگر کسی نے نجاست حکمیہ کے ہوتے ہوئے طواف کیا تو ہمارے اور امام احمد کے نزدیک یہ صحیح ہوجائے گا اور اس کیلئے ایسا کرنا حلال نہ ہوگا اور وہ گنہگار ہوگا اور اس پر اعادہ لازم ہوگا اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں جزاء لازم ہوگی۔ (لباب المناسک مع الشرح، ص 167، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اسی میں ہے:

” (ولو طاف للعمرۃ کلہ أو أکثرہ أو أقلہ ولو شوطا جنبا أو حائضا أو نفساء أو محدثا، فعلیہ شاۃ) أی فی جمیع الصور المذکورۃ“

ترجمہ: اور اگر کسی نے عمرے کے طواف کے سارے یا اکثر یا کم پھیرے اگرچہ ایک ہی پھیرا جنابت، حیض، نفاس یا بے وضو ہونے کی حالت میں کیا تو اس پر ان تمام ذکر کی گئی صورتوں میں بطور دم ایک بکری لازم ہے۔ (لباب المناسک مع الشرح، ص 390، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

ہاں ! اگر طواف کا اعادہ کرلیتے ہیں، تو دم ساقط ہوجائے گا، بحرمیں ہے:

” تجب شاة لتركه الواجب، وهو الطهارة قيد بقوله ولم يعد؛ لأنه لو أعاد الطواف طاهرا فإنه لا يلزمه شيء لارتفاع النقصان بالإعادة“

ترجمہ: واجب یعنی طہارت کو ترک کردینے کی وجہ سے بکری بطور دم لازم ہوجائے گی، اور مصنف علیہ الرحمۃ نے دم لازم ہونے کو اعادہ نہ کرنے کی صورت سے مقید کیا، کیونکہ اگر کوئی طواف کا طہارت کی حالت میں اعادہ کرلیتا ہے تو اس پر کچھ لازم نہیں کیونکہ اعادے سے نقصان پورا ہوگیا۔ (البحر الرائق، ج03، ص 23، دار الکتاب الاسلامی )

طواف کا اعادہ کرنے کی صورت میں سعی کا اعادہ کرنا واجب نہیں، یہی صحیح قول ہے، كيونکہ سعی کیلئے نہ تو طہارت حکمیہ شرط یا واجب ہے اور نہ ہی اس سے پہلے والے طواف کا پاکی کی حالت میں ہونا شرط ہے، ہاں ! اتنا ضروری ہے کہ سعی طواف معتبر یعنی طواف کے کم از کم چار پھیروں کے بعد ہو اور جو طواف بے وضو یا جنابت کی حالت میں کیا گیا وہ بھی عند الشرع معتبر طواف ہے، صرف اس میں نقصان و کمی ہے جوکہ دم سے یا اعادہ سے پوری ہوجائے گی، تاہم بہتر و افضل یہ ہے کہ سعی کا اعادہ کرلیا جائے۔

ہدایہ اور اس کی شرح عنایہ میں ہے:

” (عليه دم لترك الطهارة فيه وليس عليه في السعي شيء؛ لأنه أتى به على اثر طواف معتد به، وكذا إذا أعاد الطواف ولم يعد السعي في الصحيح) وقوله: (في الصحيح) احتراز عما قال بعض المشايخ إذا أعاد الطواف ولم يعد السعي كان عليه دم۔۔ ووجه الصحيح وهو اختيار شمس الأئمة السرخسي والإمام المحبوبي والمصنف رحمهم الله أن الطهارة ليست بشرط في السعي، وإنما الشرط أن يكون على إثر طواف معتد به، وطواف المحدث كذلك ولهذا يتحلل به، فإذا أتى به مع تقدم الشرط عليه حصل المقصود، فإن أعاد تبعا للطواف فهو أفضل وإلا فلا شيء عليہ“

 ترجمہ: اس پر طواف میں طہارت کو ترک کرنے کی وجہ سے دم لازم ہے اور سعی میں اس پر کچھ لازم نہیں کیونکہ اس نے سعی تو معتبر طواف کے بعد ہی کی ہے اور اسی طرح اگر اس نے طواف کا اعادہ کیا اورسعی کا اعادہ نہ کیا تو صحیح قول کے مطابق اس پر دم لازم نہیں، مصنف علیہ الرحمۃ کا قول کہ یہی صحیح ہے، یہ بعض مشائخ کے قول سے احتراز ہے کیونکہ انہوں نے فرمایا کہ اگر طواف کا اعادہ کیا لیکن سعی کا اعادہ نہ کیا تو اس پر دم لازم ہے اور صحیح قول جوکہ شمس الائمہ سرخسی، امام محبوبی اور مصنف علیہم الرحمۃ کا اختیار کردہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ طہارت سعی میں شرط نہیں اور شرط تو محض اتنا ہے کہ سعی ایک معتبر طواف کے بعد ہو اور محدث کا طواف بھی معتبر طواف ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ اس طواف کے بعد احرام سے باہر ہوجاتا ہے تو جب اس نے اس کی شرط مقدم ہونے کے ساتھ ہی سعی کی تو مقصود حاصل ہو گیا تو اگر وہ طواف کی تبعیت میں سعی کا اعادہ کرتا ہے تو یہ افضل ہے ورنہ اس پر کچھ لازم نہیں۔  ( الھدایۃ مع العنایہ، ج03، ص 62، مصر)

اسی طرح ہندیہ، بحر الرائق، منحۃ الخالق، رد المحتار میں بھی اعادہ سعی واجب نہ ہونے کو ہی اختیار کیاگیا ہے۔ ( الھندیۃ، ج01، ص 247، دار الفکر ) (البحر الرائق، ج03، ص 23، و، منحۃ الخالق، ج03، ص 24، دار الکتاب الاسلامی )

رد المحتار کی عبارت یہ ہے:

” (قوله: وكون السعي بعد طواف معتد به) وهو أن يكون أربعة أشواط فأكثر، سواء طافه طاهرا أو محدثا أو جنبا وإعادة الطواف بعد السعي فيما إذا فعله محدثا أو جنبا لجبر النقصان لا لانفساخ الأول“

ترجمہ: اور سعی کا معتبر طواف کے بعد ہونا واجبات میں سے ہے، اور وہ اس طرح کہ سعی طواف کے چار یا اس سے زائد پھیروں کے بعد ہو، اب چاہے وہ طواف اس نے پاکی کی حالت میں کیا ہو یا جنابت و بے وضو ہونے کی حالت میں اور بے وضو و جنابت کی حالت میں طواف کرنے کی صورت میں سعی کے بعد اس طواف کا اعادہ کرنے کاحکم نقصان کو پورا کرنے کیلئے ہے نہ کہ پہلے طواف کے منسوخ ہوجانے کی وجہ سے۔ (رد المحتار، ج02، ص 470، دار الفکر، بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے بھی جد الممتار میں دوسرے طواف کا جابر ہونا اور پہلے طواف کا منسوخ نہ ہونا اصح قرار دیا ہے، جیساکہ لکھتے ہیں :

”فان الأصح کما سیاتی شرحا أن المعتبر الأول و الثانی جابر“

ترجمہ: تو اصح قول وہی ہے جوکہ شرح میں آرہا ہے کہ پہلا طواف معتبر ہے اور دوسرا طواف نقصان کو پورا کرنے کیلئے ہے۔ (جد الممتار، ج04، ص 325، دار الکتب العلمیۃ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0653

تاریخ اجراء: 22ربیع الثانی 1447ھ/16اکتوبر 2025 ء