دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا ہے، جس میں شامل ہونے والے افراد کے درمیان ایک سال کے بعد عمرہ کی قرعہ اندازی کی جائے گی، جس کا طریقہ یہ ہےکہ گروپ ممبران کو ایک سال کے لیے درود پاک پڑھنے کا مقررہ ہدف دیا گیا ہے، سب افرد درود پاک کا وہ ہدف سال بھر میں پورا کریں گے اور ہر ماہ دو،دو ہزار روپے بھی جمع کرواتے رہیں گے، پھر سال کے آخر میں جن افراد نے درودِ پاک کا ہدف مکمل کیا ہوگا، ان کا نام قرعہ اندازی میں شامل کیا جائے گا، جس کانام نکلے گا اس کو عمرہ پیکج دیا جائے گا اور جن کا نام نہ نکلا ،ان کے پیسے واپس نہیں ملیں گے۔ براہِ کرم شرعی ر ہنمائی فرمائیں کہ یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ حسنِ نیت کے ساتھ کسی کو عمرہ کروانا اور اس کے اسباب مہیا کرنایقیناً باعثِ ثواب ہے، کئی مسلمان عمرہ کے نام پر مختلف اسکیمیں شروع کرتے بھی ہیں ، لیکن ایسی اسکیموں کا شرعی اعتبار سے سو فیصد درست ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ ثواب کی بجائے الٹا گناہ ہو گا اور پھر عمرے جیسی مقدس عبادت کے نام پر ناجائز امور کو عام کرنا تو اور بھی سخت تر ہے۔
رہا سوال میں مذکور قرعہ اندازی کا معاملہ، تویہ جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سخت ناجائزاور حرام ہے، لہذا ایسا گروپ چلانا اور اس میں شامل ہونا ناجائز و حرام اور گناہ ہے، حتی کہ جتنےبھی افراد اس واٹس ایپ گروپ میں شامل ہوکر گناہ کےمرتکب ہوں گے،ان سب کے برابر یہ کام شروع کرنے والےکو بھی گناہ ملتا رہے گا۔نیزجوئے کے ذریعے حاصل ہونے والا مال، مال حرام ہے اوراحادیث مبارکہ کے مطابق مال حرام سے کیا جانےوالا عمرہ بھی اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا۔
بہرحال جوا ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ اس واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے والےتمام افراد کسی عقد شرعی کے بغیر محض ایک موہوم امید پر اپنا مال داؤ پہ لگاتے ہیں ،یوں کہ اگر قرعہ اندازی میں نام نکل آیا، توعمرہ پیکج کی صورت میں دیگر افراد کا مال مل جائے گا اور نام نہ نکلا، تو اپنی بھی ساری رقم ڈوب جائے گی اور یہی شرعاً جوا کہلاتا ہے، جس کی قرآن و حدیث میں سخت مذمت وعیدات بیان کی گئی ہیں۔
جوئے کی حرمت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوااور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام، تو ان سے بچتے رہنا، کہ تم فلاح پاؤ۔ (پارہ 7، سورۃ المائدہ، آیت 90)
جوئے کی تعریف کرتے ہوئے تبیین الحقائق میں ہے
القمار من القمر الذی يزاد تارة وينقص اخرى وسمي القمار قمارا،لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔ و هو حرام بالنص
ترجمہ:قمار، قمر سے مشتق ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوئےبازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے اور یہ نص سے حرام ہے۔ (تبیین الحقائق، مسائل شتی، جلد 6، صفحہ 227، مطبوعہ ملتان)
اسی بارے میں مبسوطِ سرخسی میں ہے:
ثم ھذا تعلیق استحقاق المال بالخطر وھو قمار والقمار حرام فی شریعتنا
ترجمہ: پھر یہ مال کے مستحق ہونے کوخطرپرمعلق کرناہے اوریہ قمارہے اورقمارہماری شریعت میں حرام ہے۔ (مبسوطِ سرخسی، جلد 7، صفحہ 76، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)
مزید اسی بارے میں فتاوی بحرالعلوم میں ہے ”جوئے میں یہی ہوتا ہے کہ زائد رقم کی امید میں ہر آدمی اپنی رقم لگاتا ہے، مگر پوری رقم وہ لیتا ہے جس کا پانسہ آتا ہے۔“ (فتاوی بحرالعلوم، جلد 4، صفحہ 77، مطبوعہ ضیاء اکیڈمی، کراچی)
جوئے کی رائج صورتوں کے متعلق کتاب ”جوئے کی رائج صورتیں اور احکام “میں ہے ”عمرہ کے ٹکٹ، بغداد شریف یا اجمیر شریف حاضری وغیرہ مختلف مقدس ناموں سے قرعہ اندازی کی جاتی ہے اور سو روپے یا اس سے کچھ کم ،زیادہ رقم فی پرچی وصول کی جاتی اور یہ طے ہوتا ہے کہ پرچی میں جس کا نام نکل آیا ،اسے عمرہ کا ٹکٹ دیا جائے گا اور جن کا نام نہ نکلا ،ان کی رقم ضائع ہوگئی، یعنی واپس نہیں کی جائے گی ۔یہ بھی جوا کی صورت ہے ،کیونکہ ہر حصہ لینے والے شخص کے متعلق یہ امکان ہے کہ جیتنے کی صورت میں اپنی رقم دوسرے کے پاس چلی جائے گی،نیز جوا کے باوجود عمرہ کمیٹی وغیرہ کے مقدس نام پر ایسا کام کرنا اور زیادہ شنیع و قبیح ہے کہ اس پر فریب نام کے دھوکے میں مبتلا ہو کر سادہ لوح عوام جوئے والے پہلو سے غافل ہوجاتی ہے اور ثواب کا کام سمجھتے ہوئے شمولیت اختیار کرلیتی ہے، لہذا یہ جوئے کی دیگر صورتوں سے زیادہ بری ہے۔“ (جوئے کی رائج صورتیں اور ان کے احکام، صفحہ 52، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
جوئےسے حاصل شدہ مال کے متعلق الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: سوداورچوری اورغصب اورجوئے کاروپیہ قطعی حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 646، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مالِ حرام سے کیا جانے والا حج وعمرہ قبول نہ ہونے کے متعلق مجمع الزوائد کی حدیث پاک میں ہے
و إذا خرج بالنفقة الخبيثة۔۔ فنادى: لبيك، ناداه مناد من السماء: لا لبيك ولا سعديك، زادك حرام، و نفقتك حرام، و حجك غير مبرور
ترجمہ: جب کوئی شخص حرام مال لے کر(سفر حج کے لیے) نکلتا ہے اور لبیک کہتا ہے ،تو آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: تو حاضر نہیں اور نہ ہی تو خوش بخت ہے، تیرا زادِ راہ حرام کا ہے ،تیرا خرچ حرام کا ہے اور تیرا حج قبول نہیں۔ (مجمع الزوائد، باب النفقۃ من الحلال و الحرام، جلد 10، صفحہ 292، مطبوعہ قاھرۃ)
ایسی اسکیم کو ختم کرنا لازم ہے،ورنہ جتنے بھی افراد اس میں شامل ہوں گے انہیں گناہ ملے گا اور ان سب کے برابر شروع کرے والے کو بھی ملتا رہے گا۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا ،ومن دعاالی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا
ترجمہ:جو کسی کو سیدھے راستے کی طرف بلائے ،تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے،اُن سب کے برابر اس (بلانے والے )کو بھی ثواب ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو برائی کی طرف بلائے، تو جتنے بھی لوگ اس کی پیروی کریں گے، ان سب کے برابر اس کو بھی گناہ ملے گا اور پیروی کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ (صحیح مسلم، کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ الخ، جلد 2، صفحہ 341، مطبوعہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: GUJ-0046
تاریخ اجراء: 10ربیع الآخر 1447ھ/ 04 اکتوبر 2025ء